قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد میں نے بھی کچھ عرصہ وکالت کی ہے اس لیے پی آئی سی کے واقعہ پر خود مجھے بھی شرمندگی محسوس ہو رہی ہے۔ 70ء کی دہائی تک ملک میں صرف تین لاء کالج تھے، ان میں سب سے معتبر پنجاب یونیورسٹی لاء کالج تھا۔ اس کے علاوہ لاہور ہی میں نجی سطح پر حمایت اسلام لاء کالج اور کراچی میں اردو سندھ لاء کالج قائم تھا۔ پنجاب یونیورسٹی لاء کالج میں داخلے کے لئے مقررہ میرٹ کی سختی سے پاسداری کی جاتی چنانچہ جو طلبہ اس کالج میں داخلے سے محروم رہتے وہ حمایت اسلام لاء کالج سے رجوع کرتے اور پھر اردو سندھ لاء کالج کی باری آتی۔ اس طرح پیشۂ وکالت میں وکلاء کا جم غفیر بننے کی نوبت نہیں آتی تھی۔ میرے پنجاب یونیورسٹی لاء کالج کے 1974-76 ء والے سیشن میں امتیاز علی شیخ پرنسپل تھے جو بعد ازاں پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر بنے جبکہ نامور قانون دان عابد حسن منٹو‘ ڈاکٹر خالد رانجھا ، بیرسٹر اعتزاز احسن، حامد خاں ، چودھری محمد عارف (سابق جج سپریم کورٹ) عامر رضا اے خاں، خلیل رمدے، سردار اقبال موکل اور میاں آفتاب فرخ ہمارے اساتذہ میں شامل تھے۔ ان سب اساتذہ کے ساتھ نیاز مندی والا تعلق استوار ہوا اور پھر دوستی کے دائرے میں بھی داخل ہوا مگر اس تعلق میں ادب آداب والا عنصر ہمیشہ غالب رہا۔ یہ تعلق ہائیکورٹ ، سپریم کورٹ اور وکلاء تنظیموں میں پیشہ ورانہ صحافتی فرائض سرانجام دینے کے دوران مزید گہرا ہوا۔ انہی اساتذہ میں سے بعض وکلاء ہائیکورٹ اورسپریم کورٹ بار کے اہم مناصب اور پنجاب و پاکستان بار کونسل کی رکنیت اور وائس چیئرمینی کے لیے بھی منتخب ہوتے رہے جبکہ کئی محترم اساتذہ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے جج کے منصب پر بھی فائز ہوئے۔
وکالت کا پیشہ اس لئے بھی معزز اور معتبر پیشوں میں شمار ہوتا تھا کہ بانیان پاکستان قائد اعظم اور علامہ اقبال بھی اسی معزز پیشہ کے ساتھ وابستہ تھے جبکہ اس پیشہ کو ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری کا ضامن پیشہ سمجھا جاتا تھا۔ کالے کوٹ والوں نے 70ء اور 80ء کی دہائی میں آئین و قانون کی حکمرانی اور عدلیہ کی آزادی کے لیے بے مثال جدوجہد کی۔ انہوں نے بھٹو کی سول آمریت کا بھی سامنا کیا اور ضیاء کی جرنیلی آمریت کے جبر و تشدد کے آگے بھی آئین و قانون کی حکمرانی کے لیے ڈٹے رہے۔ ضیاء آمریت کی سختیاں تو انتہا ئی درجے کی تھیں اور وکلاء تنظیموں اور اس کے قائدین نے آئین و قانون کی حکمرانی کی خاطر جمہوریت کی بحالی کی جدوجہد بھی اپنی جدوجہ میں شامل کر لی تھی جس کے دوران ایم آر ڈی کے کارکنوں ہی کی طرح وکلاء کی بھی ریاستی جبر میں دھنائی ہوا کرتی تھی مگر وکلاء برادری میں کسی کی بھی جانب سے قانون ہاتھ میں لینے، توڑ پھوڑ کرنے اور سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچانے کا کبھی سوچا بھی نہیں جاتا تھا۔ وکلاء کے سرخیل عابد حسن منٹو‘ سید افضل حیدر، چودھری خالد محمود، ملک سعید حسن، چودھری اعتزاز احسن ہائیکورٹ سے ریگل چوک اور اسمبلی ہال تک اور کبھی گورنر ہائوس تک وکلاء کے جلوسوں کی قیادت کرتے اور آئین و قانون کی حکمرانی کے لیے جدوجہد جاری رکھنے کے عہد کا اعادہ کرتے۔ اس دوران وکلاء اور ان کے قائدین پابند سلاسل بھی ہوتے رہے مگر کسی ردعمل میں قانون ہاتھ میں لینے اور شرف انسانیت کے تقاضے فراموش کرنے والا کوئی اقدام اٹھانے کا پیشہ وکالت میں تصور بھی نہیںکیا جا سکتا تھا۔ پھر اسی وکلاء برادری نے 2007ء میں مشر ف کی جرنیلی آمریت کے دوران سول سوسائٹی کی معاونت سے عدلیہ بحالی کی تحریک چلائی جس کے نتیجہ میں بالآخر مشرف آمریت کے ماتحت قائم ہونے والی پیپلز پارٹی کی سول حکومت مشرف ہاتھوں گھر بھجوائی گئی اعلیٰ عدلیہ کو بحال کر نے پر مجبور ہوئی۔ اس تحریک کے دوران بے مثال مارچ اور لانگ مارچ ہوئے جو کئی دنوں تک مسلسل جاری رہے مگر اس کے دوران وکلاء برادری کے ہاتھوں کہیں پر گملہ تک ٹوٹنے کی نوبت نہ آئی۔ چودھری اعتزاز احسن وکلاء کی اس پرامن جدوجہد پر بجاطور پر فخر کرتے ہیں اور گزشتہ روز پی آئی سی میں وکلاء کے دھاوے پر سب سے زیادہ افسوس اور شرمندگی کا اظہار بھی انہوں نے ہی کیا۔
جناب آج یہی صورتحال سنجیدہ غور و فکر کی متقاضی ہے کہ ایسے کیا حالات پیدا ہو گئے ہیں کہ آج قانون کے محافظ اس طبقے نے پی آئی سی کے واقعہ میں نہ صرف قانون ہاتھ میں لیا بلکہ شرف انسانیت کے تمام تقاضے بھی فراموش کر دئیے۔ ایک حساس ترین ہسپتال پر حملہ آور ہونا ویسے ہی انتہائی شرمناک اقدام ہے کہ دو ممالک کی جنگ کے دوران بھی ہسپتالوں پر دشمن کے حملے کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ یہاں تو انہوں نے لٹیا ہی ڈبو دی اور اس غنڈہ گردی کے مظاہرے میں جو بھی سامنے آیا اور جو بھی ہاتھ آیا اسے دبوچنے‘ نوچنے اور تشدد کا نشانہ بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی گئی حتیٰ کہ پی آئی سی کی ایمرجنسی میں انتہائی نازک حالت میں موجود مریضوں کو بھی نہ بخشا گیا اور ان کے ماسک تک کھینچ کر اتار لئے گئے۔ کئی وکلاء ہاتھ میں پستول لہراتے اور ہوائی فائرنگ کرتے بھی نظر آئے۔ پھر ہسپتال کا جو حشر کیا گیا وہ سوشل میڈیا کے ذریعے پوری دنیا کی نظروں میں آ کر ہماری سماجی اور اخلاقی قدروں کے ’’ڈنکے‘‘ بجا رہا ہے۔ بیرسٹر علی ظفر بھی یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ ایسے کسی واقعہ پر وکلاء گردی کی اصطلاح استعمال نہ کی جائے کیونکہ یہ پوری وکلاء برادری پر لیبل لگ جاتا ہے مگر جناب! وکلاء برادری کو اس لیبل سے بچانا بھی تو وکلاء قائدین کی ذمہ داری ہے جس کیلئے چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس آصف سعید کھوسہ کچھ عرصہ قبل وکلاء تنظیموں کو یہ درس دے چکے ہیں کہ اب عدلیہ بحالی تحریک جیسی وکلاء عزت بحالی کی تحریک چلانے کی ضرورت ہے۔ سو پی آئی سی کے واقعہ کا جو بھی پس منظر ہے‘ وکلاء کا ایک قومی ادارے پر حملہ آور ہونا اس مقدس پیشے میں در آنے والی سماجی اور اخلاقی گراوٹ ہی کا عکاس ہے۔ ذرا سر جوڑ کر اس گراوٹ کی وجوہات کا بھی کھوج لگا لیں۔ کہیں وکلاء برادری میں یہ ہتھ چھٹ کلچر اپنوں کی خصوصی رعایت اور نوجوان وکلاء کے جم غفیر میں پیدا ہونے والے اقتصادی مسائل کے باعث تو پروان نہیں چڑھا۔
گزشتہ روز چودھری اعتزاز احسن بھی اس حقیقت کا اعتراف کر رہے تھے کے وکلاء میں موجود لابیز کے پس منظر میں وکلاء کے کسی غیرقانونی اقدام پر انہیں قانونی اور عدالتی رعایت مل جاتی ہے۔ اس طرح وہ کڑے احتساب اور سزا کے خوف کو خود پر طاری نہیں ہونے دیتے۔ میں پہلے بھی کئی بار ان سطور میں اس امر کی نشاندہی کر چکا ہوں کے وکلاء برادری بالخصوص نوجوان وکلاء نے عدلیہ بحالی تحریک سے اپنے لئے بہت سی توقعات وابستہ کر لی تھیں چنانچہ جب یہ تحریک عدلیہ کی بحالی کی صورت میں کامیاب ہوئی تو وکلاء نے ہر جائز ناجائز کیس میں قانون و انصاف کے اداروں سے ریلیف حاصل کرنا اپنا حق سمجھ لیا اور جہاں بھی انہیں اپنے اس حق پر زد پڑتی نظرآئی تو انہوں نے پولیس‘ سائلین اور ججوں تک پر حملہ آور ہونے سے گریز نہیں کیا۔ ایک خاتون سول جج کو کمرے میں محبوس کرکے باہر تالا لگانے کا واقعہ بھی اسی حق کو جتانے کیلئے رونما ہوا تھا اور پھر کمرہ عدالت میں ایک وکیل کی جانب سے مجسٹریٹ کو کرسی دے مارنے کا واقعہ بھی اسی حق کا شاخسانہ تھا۔ ابھی گزشتہ روز ہی جب لاہور میں وکلاء پی آئی سی پر حملہ آور تھے‘ مظفر گڑھ میں وکلاء ایک عدالت کے عملے کی مارپیٹ میں بھی مصروف تھے۔ یہ دراصل وکلاء برادری کی اکثریت کے اقتصادی محرومیوں کا شکار ہونے کا ردعمل ہے۔ وکلاء کے مخصوص گروپ تو بار پولیٹیکس کے حوالے سے نامور وکلاء کے چیمبرز اور ججز چیمبرز سے منسلک ہوکر بڑی بڑی فیسوں والے کیس حاصل کر لیتے ہیں جن میں انہیں آسانی کے ساتھ ریلیف بھی مل جاتا ہے مگر نوجوان وکلاء کی اکثریت بریف لیس ہونے کے ناطے اپنی محرومیوں کا غصہ قانون ہاتھ میں لیکر اتارتی ہے جس کا منفی تاثر بہر صورت پورے پیشہ وکالت پر مرتب ہوتا ہے۔ بالخصوص بار کے انتخابات کے موقع پر نوجوان وکلاء کو مطمئن کرنے اور ان کی ہمدردیاںحاصل کرنے کیلئے ان کے غیرقانونی اقدامات کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ پی آئی سی کا گزشتہ روز کا واقعہ بھی انہی حالات کا پیدا کردہ ہے جن میں لاہور بار ایسوسی ایشن اور لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے آنے والے انتخابات میں انتخابی امیدواروں اور ان کے گروپوں کی جانب سے نوجوان وکلاء کو ہلہ شیری دیئے رکھنا متعلقین کی مجبوری بن گیا تھا۔
آج تو ویسے ہی اقتصادی حالات کی سختیوں کے باعث پوری قوم میں اضطراب کی کیفیت ہے اورحکومت ان سختیوں میں عوام کو کسی قسم کا ریلیف دینے پر بھی آمادہ نہیں اس لئے کوئی ہلکی سی چنگاری بھی سب کو جلا کر خاکستر کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔ تو جناب پی آئی سی والے واقعہ سے ہی کچھ عبرت حاصل کر لیجئے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کل کو ایسی خانہ جنگی کی نوبت آجائے جسے کسی حکومتی گورننس کیلئے بھی سنبھالنا مشکل ہو جائے اور طاقت و اختیار والوں کو بھی اپنی جان کے لالے پڑتے نظر آئیں۔