ہمارے سیاسی کلچر میں در آنیوالی بلیم گیم اور ایک دوسرے پر پوائنٹ سکورنگ کی روش اب کافی پختہ ہو چکی ہے اور بدقسمتی سے اس روش کو آگے بڑھاتے ہوئے ملکی و قومی مفادات اور قومی پالیسیوں کی بھی پاسداری نہیں کی جاتی۔ اس روش میں آئین اور قانون کو موم کی ناک بنا کر انکے ساتھ کھیلنا تو اب بازیچۂ اطفال بن چکا ہے۔ اسی روش میں صوبوں پر سیاست کرنا بھی ہماری قومی سیاسی جماعتوں اور انکی قیادتوں کا مشغلہ بن چکا ہے۔ آئین پاکستان کی دفعہ 239‘ ذیلی دفعہ 4 کے تحت کسی صوبے میں سے نئے صوبے کی تشکیل کا طریق کار متعین ہے جس کے تحت متعلقہ صوبے کی اسمبلی اپنے مجموعی ارکان کی کم از کم دو تہائی اکثریت کے ساتھ نئے صوبے کی قرارداد منظور کریگی جو قومی اسمبلی کو بھیجی جائیگی اور قومی اسمبلی تین چوتھائی اکثریت کے ساتھ اس قرارداد کی منظوری دیگی جس کے بعد آئین میں نئے صوبے کی گنجائش نکلے گی جو درحقیقت ملک کے وفاقی پارلیمانی ڈھانچے کی ہیئت ترکیبی میں تبدیلی ہو گی۔ اس وقت ملک کا آئین وفاق اور اسکی چار اکائیوں کا احاطہ کرتا ہے۔ اگر اس وفاقی پارلیمانی ڈھانچے میں کسی نئے صوبے کو شامل کرنا مقصود ہو تو اس کیلئے بنیادی طور پر آئین میں ترمیم کرنا ہوگی جو پارلیمنٹ میں دوتہائی اکثریت کے ساتھ ہی ممکن ہوتی ہے۔
بے شک نئے صوبوں کیلئے سیاست بہت دیر سے چل رہی ہے اور 80ء کی دہائی سے اب تک کبھی جنوبی پنجاب‘ کبھی بہاولپور‘ کبھی ہزارہ اور کبھی جناح پور کے نام سے پنجاب‘ سرحد اور سندھ میں سے نئے صوبے نکالنے کا ہماری سیاست میں شوروغوغا رہا ہے مگر متعلقہ صوبائی اسمبلی اور پھر قومی اسمبلی میں مطلوبہ اکثریت نہ ہونے کے باعث پیپلزپارٹی‘ مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم متحدہ سمیت کوئی بھی جماعت اب تک نئے صوبے کا کریڈٹ اپنے کھاتے میں نہیں ڈال سکی۔ مسلم لیگ (ن) کے گزشتہ دور میں دوتہائی اکثریت کے بل بوتے پر پنجاب اسمبلی میں صوبہ جنوبی پنجاب کیلئے قرارداد منظور بھی کرالی گئی تھی مگر اسے قومی اسمبلی میں لے جانے کی نوبت ہی نہ آسکی۔ پیپلزپارٹی نے اپنے دور حکومت میں گلگت بلتستان کو انتظامی فیصلے کے تحت آئین میں ترمیم کے بغیر اس لئے صوبے کا درجہ دیا کہ شمالی علاقہ جات کسی صوبے کا حصہ نہیں تاہم اس وقت بھی یہ سنگین آئینی ایشو پیدا ہوا تھا کہ ہم کشمیر کے متنازعہ علاقہ ہونے کے اپنے دیرینہ اصولی موقف سے ہٹ کر کشمیر کے کسی علاقے کو اس مسئلہ کے تصفیہ کے بغیر کیسے پاکستان کا حصہ بنا سکتے ہیں۔
بے شک کشمیر بنے گا پاکستان ہمارا ماٹو ہے اور تقسیم ہند کے فارمولے کے تحت مسلم اکثریتی آبادی کے ناطے کشمیر کا پاکستان کے ساتھ ہی الحاق ہونا تھا جس کے بغیر پاکستان کا وجود ادھورا ہے۔ بانیٔ پاکستان قائداعظم نے اسی تناظر میں کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا اور بے شک کشمیری عوام نے بھی تقسیم ہند سے قبل ہی چودھری غلام عباس کی زیرقیادت اپنے نمائندہ اجتماع میں کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کرلیا تھا مگر قیام پاکستان کے بعد ہندو لیڈر شپ نے ایک سازش کے تحت کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق نہ ہونے دیا اور اسکے بڑے حصے پر اپنا فوجی تسلط جمانے کے بعد وادی کشمیر کو متنازعہ علاقہ بنا دیا اور پھر اسکے تصفیہ کیلئے اقوام متحدہ سے رجوع کرلیا تو ہمارا اس وقت سے ہی یہ اصولی موقف طے ہوا کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کشمیری عوام کو خود کرنے دیا جائے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی پاکستان اور کشمیریوں کے اس موقف کو تسلیم کرتے ہوئے کشمیریوں کو اپنے مستقبل کے تعین کیلئے استصواب کا حق دیا اور بھارت کو مقبوضہ وادی میں استصواب کے اہتمام کی ہدایت کی۔ بھارت نے اقوام متحدہ کے روبرو تو کشمیریوں کے استصواب کا حق تسلیم کرلیا مگر بعدازاں کشمیر پر اٹوٹ انگ کی ہٹ دھرمی اختیار کرلی اور پھر اپنے آئین میں ترمیم کرکے دفعہ 370 کے تحت مقبوضہ وادی کو خصوصی آئینی حیثیت کے ساتھ بھارتی ریاست کا درجہ دے دیا۔
یقیناً کشمیری عوام اور پاکستان نے اس بھارتی ہٹ دھرمی کو شروع دن سے تسلیم نہیں کیا‘ کشمیری عوام نے 1948ء میں ہی بھارتی تسلط سے آزادی کی جدوجہد کا آغاز کیا جو لاکھوں جانوں کی قربانیوں کے ساتھ آج بھی شدومد کے ساتھ جاری ہے اور گزشتہ سال 5؍ اگست کو بھارت کی مودی سرکار کی جانب سے مقبوضہ وادی کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے اور اسے دو حصوں میں تقسیم کرکے بھارت میں ضم کرنے کے اقدام کے بعد کشمیریوں کی اس جدوجہد میں شدت پیدا ہوچکی ہے جسے دبانے کیلئے مودی سرکار نے گزشتہ ڈیڑھ سال سے لاک ڈائون کے ذریعے کشمیریوں کو گھروں میں محصور کررکھا ہے۔ اسکے برعکس پاکستان شروع دن سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں مسئلہ کشمیر کے استصواب کے ذریعے حل پر زور دے رہا ہے اور اس موقف کے تحت ہی کشمیر کی متنازعہ حیثیت برقرار رکھی گئی ہے جس کے علاقوں بشمول گلگت بلتستان میں کشمیری عوام کی اپنی حکومت‘ اپنی اسمبلی‘ اپنی عدالت عظمیٰ اور اپنا آئین و قانون ہے جس کے ماتحت آزاد جموں و کشمیر کے انتظامی معاملات چلائے جارہے ہیں جبکہ بھارت نے کشمیریوں کو استصواب کا حق دیئے بغیر مقبوضہ وادی کو اپنے اندر ضم کرکے جہاں کشمیریوں کو مضطرب اور برافروختہ کیا ہے وہیں دنیا بھر سے اپنے خلاف ردعمل کو بھی دعوت دی ہے۔ اس بنیاد پر آج مودی سرکار کا پوری دنیا میں عملاً ناطقہ تنگ ہے جبکہ پاکستان‘ چین اور سلامتی کونسل کے دوسرے ارکان گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران سلامتی کونسل کی تین ہنگامی نشستوں کے ذریعے بھارت پر سلامتی کونسل کی قراردادں کی روشنی میں مسئلہ کشمیر کے حل پر زور دے چکے ہیں۔
کشمیر کے متنازعہ ہونے کا اصولی موقف رکھتے ہوئے اگر اب گلگت بلتستان کو باقاعدہ صوبے کا درجہ دے دیا جاتا ہے تو اس سے کشمیر پر محض ہمارا موقف ہی کمزور نہیں ہوگا بلکہ مودی سرکار کیلئے مقبوضہ وادی کو بھارت میں ضم کرنے کے پانچ اگست 2019ء کے ناجائز اقدام کا جواز بھی نکل آئیگا جس کی بنیاد پر وہ دنیا کو باور کرائے گا کہ کشمیر تو ہمارا اٹوٹ انگ ہی ہے۔ یہ درحقیقت مسئلہ کشمیر کا ٹنٹا ختم کرنے کا فارمولا ہے مگر یاد رکھیے کہ مکار ہندو بنیاء ہمیں ڈنک مارنے سے پھر بھی باز نہیں آئیگا جو پہلے ہی گلگت بلتستان اور دوسرے شمالی علاقہ جات سمیت آزاد کشمیر کو بھی اپنے توسیع پسندانہ عزائم کے تحت ہڑپ کرنے کی منصوبہ بندی کئے بیٹھا ہے۔
اب گلگت بلتستان کے انتخابات کے موقع پر اسے باضابطہ طور پر پاکستان کے صوبہ کا درجہ دینے کے اعلانات ہورہے ہیں جس پر وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر کی جانب سے کشمیر کی متنازعہ حیثیت کے تناظر میں ہی تشویش کا اظہار سامنے آچکا ہے تو خدارا پوائنٹ سکورنگ کی سیاست سے ہٹ کر اسکے ممکنہ مضمرات کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لے لیجئے۔ اگر بھارت کو ہماری اس سیاست کی بنیاد پر کشمیر پر اپنی ہٹ دھرمی دنیا سے تسلیم کرانے کا موقع مل گیا تو پاکستان کے ساتھ الحاق کی تمنا اور جدوجہد میں اپنے لاکھوں پیاروں کی جانیں قربان کرنیوالے کشمیریوں کا بھارتی تسلط سے آزادی کا اب تک کا سفر کھوٹا نہیں ہو جائیگا؟ بے شک بلیم گیم اور پوائنٹ سکورنگ والی سیاست برقرار رکھیے مگر پاکستان کے ساتھ الحاق کیلئے کشمیریوں کی سہانے سپنوں سے لبریز آنکھیں ویران نہ ہونے دیجئے۔ انکے یہ خواب پاکستان کی بقاء اور استحکام کے خواب ہیں جو ہمارے کسی فعل کے نتیجہ میں ٹوٹ گئے تو ان خوابوں کی جگہ وحشت کشمیریوں کی آنکھوں میں بسیرا کرسکتی ہے۔ اگر کشمیر کا ٹنٹا ختم کرنے کا یہ کوئی عالمی ایجنڈا ہے تو پھر ہمیں اپنے وجود کی سلامتی کیلئے بھی فکرمند ہو جانا چاہیے کیونکہ اگلا وار ہماری سلامتی پر ہی ہوگا۔
٭…٭…٭