سب سے پہلے تو اپنے ان تمام پیاروں‘ عزیزوں‘ دوست احباب کا دل کی اتھاہ گہرائیوں سے شکر گزار ہوں جنہوں نے میرے کرونا وائرس کا شکار ہونے کے بعد میری ٹیلی فونک اور سوشل میڈیا پر مزاج پرسی کی‘ میرے ہم قدم رہنے کا احساس دلایا اور مجھے کبھی تنہائی کا احساس نہیں ہونے دیا۔ اس وائرس سے مجھے جو ذاتی تلخ و شیریں تجربات حاصل ہوئے اس کا آئندہ کالم میں مفصل تذکرہ کروں گا۔ فی الوقت اپنی اس کیفیت کے اظہار پر ہی اکتفا کروں گا کہ آج کرونا کی لپیٹ میں آنے کے 17, 16 روز بعد بھی نقاہت کے غلبے میں ہوں اور ’’جی کردا اے ہن تے سُتے سَوں جائیے‘‘ والی کیفیت بدستور طاری ہے۔ بے شک رب کی رضا کے آگے کوئی پر نہیں مار سکتا اور دعائوں کی تاثیر سے انکار کی مجال کہاں۔ آپ کی دعائوں کا بدستور طالب ہوں۔ قارئین محترم کا اصرار تھا کہ کالم میں لمبا وقفہ نہ کروں اس لئے منتشر ذہن کے ساتھ ہی قلم اٹھانے پر مجبور ہو گیا ہوں۔ کہیں خیالات بے ربط نظر آئیں تو معاف فرما دیجئے گا۔
اس وقت قومی سیاست و معاملات پر بھی عملاً انتشار کی کیفیت ہی طاری ہے۔ ہر موضوع اور ہر معاملہ طویل بحث کا متقاضی ہے تاہم دو تین سلگتے معاملات پر چلتے چلتے اظہار رائے کی کوشش کروں گا۔ عملاً یہ سارے معاملات اسلام آباد سے متعلق ہیں۔ تازہ معاملہ ڈی چوک پر گزشتہ روز سرکاری ملازمین کے دیئے گئے دھرنے کا حشر تھا۔ سوشل میڈیا پر اس دھرنے پر چھوڑی گئی زہریلی گیس کے چرچے رہے جو بادلوں کی طرح اٹھ کر پورے اسلام آباد کو اپنی لپیٹ میں لیتی نظر آتی رہی اور پھر یار لوگوں کو گورننس کے معاملہ میں اس دھرنے کے حشر کا اسی ڈی چوک پر 15‘ اگست 2014ء سے شروع ہونیوالے 126 دن کے دھرنے کے ساتھ موازنہ کرنے کا موقع بھی مل گیا۔ اس حوالے سے یہی تبصرہ متعلقین کی تشفی کیلئے کافی ہے کہ دیگر طبقات کی طرح آج پبلک سروسز کے لوگوں کو بھی تبدیلی کیلئے اپنے رومانٹسزم کا شافی و کافی جواب مل گیا ہے۔ اس سے چند روز قبل وکلاء برادری کے ہاتھوں اسلام آباد ہائیکورٹ کا جو حشر ہوا وہ یقیناً اس معزز و مقدس ادارے کے اپنے لئے بھی لمحۂ فکریہ ہوگا کہ اس سانحہ سے دو روز قبل عدالت عظمیٰ کے ایک فاضل جج کمرۂ عدالت میں موجود میڈیا کے ارکان سے باقاعدہ ہاتھ اٹھوا کر میڈیا کے آزاد ہونے کے معاملہ میں جواب لے چکے تھے۔ ارے صاحب! ہم میں یہ مجال کہاں کہ یہی سوال انکی جانب واپس لوٹایا جائے مگر وکلاء کے ہاتھوں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ہونیوالے حشر کا جسٹس افتخار محمد چودھری کی عدلیہ بحالی تحریک کے ساتھ موازنہ کیا جارہا ہے تو یہ معاملہ اس مقدس و معزز ادارے کیلئے بہرصورت سوچ بچار کا متقاضی تو ہے۔ ’’ہم بولے گا تو بولو گے کہ بولتا ہے‘‘۔
اور اب معاملہ درپیش ہے سینٹ کے آنیوالے انتخابات میں ’’گھوڑوں‘‘ کی ممکنہ خریدوفروخت کی منڈی کے آگے بند باندھنے کا۔ حکمران پارٹی اس کیلئے پوائنٹ سکورنگ کی پوری تگ و دو میں ہے۔ سینٹ کے انتخابات کیلئے آئین میں موجود خفیہ رائے شماری کا مروجہ طریق کار ’’شوآف ہینڈز‘‘ میں تبدیل کرانے کیلئے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کیا گیا اور اس ریفرنس کی سماعت شروع ہوتے ہوتے خفیہ رائے شماری کی قباحتوں کے طوفان اٹھا کر ان کا رخ عدالت عظمیٰ کی جانب موڑنے کی حتیٰ الوسع کوشش کی گئی۔ ساتھ ہی اپوزیشن جماعتوں کو انکے مابین 2005ء میں لندن میں طے پانے والے میثاق جمہوریت کے کچوکے بھی لگائے گئے کہ آئندہ کیلئے ہارس ٹریڈنگ روکنے کیلئے آپ نے خود ہی تو اس میثاق جمہوریت میں شوآف ہینڈز کا طریقۂ انتخاب رائج کرنے کا عہد کیا تھا۔ اب اسکی مخالفت کرکے آپ گویا گھوڑوں کے اصطبل کے ہی محافظ رہنا چاہتے ہیں۔
بے شک میں خود بھی شوآف ہینڈ کا طریقۂ انتخاب ہی رائج کرنے کے حق میں ہوں مگر اس کیلئے مروجہ آئینی طریق کار کے مطابق ہی تبدیلی لانا ہوگی جو آئین کی متعلقہ شق میں دوتہائی اکثریت کے ساتھ ترمیم کی متقاضی ہے۔ اس کیلئے آپ قومی اسمبلی میں آئینی ترمیم لے آتے تو اپوزیشن آپ پر غصہ نکال کر اپنے سابقہ عہد کی بنیاد پر اس ترمیم کے حق میں ووٹ دینے پر یقیناً آمادہ ہو جاتی مگر آپ نے قومی اسمبلی کے بجائے سپریم کورٹ جانے کا راستہ اختیار کیا جہاں ابھی ریفرنس کی کارروائی شروع ہی ہوئی تھی کہ آپ نے سینٹ کے انتخابات شوآف ہینڈز سے کرانے کا صدارتی آرڈی ننس جاری کر دیا جس میں یہ وضاحت بھی کر دی گئی کہ اس آرڈی ننس کا اطلاق صرف سینٹ کے موجودہ انتخابات پر ہوگا۔ اگر غور سے سمجھا جائے تو سپریم کورٹ میں ایک کیس کی سماعت کے دوران آرڈی ننس جاری کرنا اس کیس پر اثرانداز ہونے کی کوشش اور صریحاً توہین عدالت کے مترادف ہے۔ بھلے آپ نے اس آرڈی ننس کے اطلاق کو سپریم کورٹ کے حتمی فیصلہ کے ساتھ مشروط کردیا مگر اس آرڈی ننس کے ذریعے سپریم کورٹ کے روبرو اپنی خواہش کا اظہار تو کر دیا۔ اس سے بڑی عدالتی کارروائی میں مداخلت بھلا اور کیا ہو سکتی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے اس پر بھی نرم رویہ اختیار کیا اور آپ کو محض یہ باور کرایا کہ آرڈی ننس کو عدالت عظمیٰ کے فیصلہ کے ساتھ مشروط نہ کیا گیا ہوتا تو عدالت اسے کالعدم قرار دینے میں کوئی دیر نہ لگاتی۔ آپ کی اس پر بھی تشفی نہ ہوئی تو شوآف ہینڈز کے فیصلہ کیلئے عدالت پر دبائو بڑھانے کی خاطر آپ ’’گھوڑا فروشی‘‘ کی 2018ء والی ویڈیو منظرعام پر لے آئے۔ ارے صاحب! یہ گھوڑا فروشی بے شک ایک لعنتی عمل ہے مگر کس کے ہاتھوں سرانجام پایا؟ متعلقہ ویڈیو کے ایک کردار نے خود ہی نشاندہی کر دی کہ ’’گھوڑوں‘‘ کا یہ اصطبل تو خیبر پی کے اسمبلی کے سپیکر ہائوس میں فاضل سپیکر کی موجودگی میں لگا تھا۔
چلیں وہاں تک ہی کیا جائیں‘ اس وقت تو موجودہ گورنر پنجاب چودھری محمد سرور کے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر پنجاب سے سینیٹر منتخب ہونے کا معاملہ بھی ہارس ٹریڈنگ کی واضح مثال بن کر سامنے آیا تھا۔ ’’جے ویکھاں میں عملاں ولے‘ کجھ نئیں میرے پلے‘‘ آپ چیئرمین سینٹ کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک کے حشر کا حالیہ معاملہ ہی لے لیں۔ حضور 14 طبق تو روشن ہو جاتے ہیں۔ اس ہارس ٹریڈنگ کا فائدہ سمیٹنے والا کون تھا۔ اور آپ ان پارٹی قیادتوں سے ہارس ٹریڈنگ روکنے کے متقاضی ہیں جنہوں نے پارٹی فنڈز کے نام پر کروڑوں میں پارٹی ٹکٹ فروخت کرنا اپنا کاروبار بنا رکھا ہے۔ اس کاروبار میں 2018ء کے انتخابات میں تحریک انصاف تو سرفہرست رہی ہے۔ کبھی اسکی بھی جوابدہی ہو جائے کہ پارٹی فنڈز کے نام پر اکٹھی ہونیوالی اربوں روپے کی رقوم کس مصرف میں اور کس کے مصرف میں جاتی ہیں۔ اور کیا آج بھی پارٹی قیادتوں میں اتنا ظرف ہے کہ اپنے کسی بے لوث جیالے‘ متوالے‘ ٹائیگر کو بغیر کسی بھائو تائو کے محض اسکی خدمات کی بنیاد پر قومی یا صوبائی اسمبلی یا سینٹ یا کسی بلدیاتی سطح پر بھی پارٹی ٹکٹ سے سرفراز کر دیا جائے۔ سلطانیٔ جمہور میں اصل ’’سٹیٹس کو‘‘ تو سلطان کی حکمرانی والا ہے۔ اسے توڑنے کیلئے کوئی آگے آئے گا تو بات بنے گی ورنہ تبدیلی کے نعرے سب ڈھکوسلے ہیں۔ ’’دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا‘‘