کسی اچھی بات کے حوالے سے مثال دی جاتی ہے کہ یہ نہ دیکھیں کون کہہ رہا ہے بلکہ یہ دیکھیں کہ کیا کہہ رہا ہے۔ یعنی کوئی اچھی بات چاہے کوئی چور‘ ڈاکو بھی کہہ رہا ہو تو جس کو سمجھانے کیلئے وہ بات کی جارہی ہو‘ اسے سمجھنا ضرور چاہیے ورنہ ’’مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر‘‘ والا معاملہ ہی بن جاتا ہے۔ یہاں تو بات بھی دل لگتی اور معتبر ہے اور کہنے والا بھی معتبر ہے اس لئے اب یہی تصور کیا جائیگا کہ ’’جو نہ سمجھے‘ وہ اناڑی ہے‘‘۔
مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چودھری شجاعت حسین حکومتی اتحادی ہونے کے ساتھ ساتھ سابق وزیراعظم اور ایک زیرک سیاست دان بھی ہیں جو اپنے بھرپور سیاسی خاندانی پس منظر میں قومی سیاست کے اسرار و رموز سے واقف بھی ہیں اور ان پر گہری نظر بھی رکھتے ہیں۔ حکومتی اتحادی ہونے کے ناطے وہ سیاست کے روایتی چلن کی بنیاد پر محض تنقید برائے تنقید تو نہیں کر سکتے۔ اگر وہ امور حکومت میں کسی خرابی کی نشاندہی کرتے ہیں تو خلوص نیت کے ساتھ ان کا مقصد حکومتی گورننس میں اصلاح کا ہوتا ہے۔ بے شک انکے چچازاد بھائی چودھری پرویز الٰہی سپیکر پنجاب اسمبلی کے منصب پر فائز ہیں اور ہائوس کا کسٹوڈین ہونے کے علاوہ حکومتی اتحادی ہونے کے ناطے انہوں نے ہائوس میں حکومت کیلئے پریشانی کا باعث بننے والے کسی معاملہ پر فہم و فراست کے ساتھ سرکاری بنچوں کیلئے سازگار ماحول پیدا کرنے میں بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوتا ہے جو وہ اب تک ادا کررہے ہیں مگر سلطانیٔ جمہور میں حکومت خود ہی جمہور کو راندۂ درگاہ بنانے پر تلی بیٹھی ہو تو چودھری برادران جیسے حکومتی اتحادی اصلاح احوال کا ہی مشورہ دینگے۔ وہ محض حکومت کا دم بھرنے کیلئے خود کو عوام سے کاٹ کر تو نہیں بیٹھ سکتے۔ سو چودھری شجاعت حسین نے حکومتی پالیسیوں کے نتیجہ میں عوام کی غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے ہاتھوں درگت بنتی دیکھی ہے تو اس پر عوام کے ممکنہ ردعمل سے حکومت کو بچانے کی خاطر ہی باور کرایا ہے کہ پنجاب میں روزگار چھننے پر لوگوں کی اموات ہوئی ہیں‘ آپ غریبوں کی حالتِ زار پر رحم کریں‘ غریب دکاندار کے بچے کون پالے گا۔
حضور! یہ محض پوائنٹ سکورنگ والا کوئی سیاسی بیان نہیں ہے بلکہ ’’کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا غائبانہ کیا‘‘ کی عکاسی اور بے کس و بے بس عوام کے جذبات کی ترجمانی ہے۔ عوام بھوک سے مر رہے ہیں‘ آپ سے روٹی کے متقاضی ہیں اور آپ انہیں لیکچر دیتے ہیں کہ پچھلے چور ڈاکو ملک لوٹ کر کھا گئے ہیں‘ لوگوں کے روزگار چھن رہے ہیں اور نئے روزگار کے راستے مسدود ہیں‘ وہ واویلا کرتے سڑکوں پر آتے ہیں اور حکومتی مخالفین کو عوام کے یہ برہم جذبات اپنے حق میں کیش کرانے کا نادر موقع مل رہا ہے تو آپ عوام کیلئے روزگار کی آسانیاں پیدا کرنے کی بجائے انہیں ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیتے ہیں اور پھر باور کراتے ہیں کہ یہ سب کچھ تو سابقین کا کیا دھرا ہے۔ ہمیں تو اجڑی ہوئی معیشت ورثے میں ملی ہے۔ حضور! ڈِھڈ نہ پّیاں روٹیاں تے سبّھے گلاں کھوٹیاں۔ سابقین والی گردان سے عوام کا پیٹ تو نہیں بھر سکتا۔ انہیں اپنے حال اور اپنے بچوں کے مستقبل کیلئے اندھیرا ہی اندھیرا نظرآئیگا تو کیا وہ سابقین کی لوٹ مار کے سیاپے پر خوشی خوشی آپ کی ہاں میں ہاں ملاتے جائینگے۔ ارے صاحب! اب تو آپکے اپنے اقتدار کے اڑھائی سال گزر چکے ہیں۔ تبدیلی کے نعروں کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ہنی مون پیریڈ کے بعد کا عرصہ تو آزمائش ہی آزمائش ہے۔ آپ عوام کو انکے گوناں گوں مسائل میں ریلیف دینے کے بجائے ان پر آئے روز مہنگائی کے چھانٹے برسا رہے ہیں‘ ان کا روزگار چھین رہے ہیں‘ روزگار والوں کی پہلے سے حاصل مراعات محدود کر رہے ہیں اور بے روزگاری کے جھکڑ چلا رہے ہیں تو قعرمذلت کی جانب دھکیلے جانیوالے یہ لوگ کیا بس آپکے سٹائل کی تعریف میں ہی مگن رہیں گے۔ حضور جب پبلک سروس کمیشن کی مشتہر کردہ نوکریاں بھی میرٹ کی پاسداری کی بجائے سرعام فروخت ہو رہی ہوں اور ہر قسم کے مناصب اقرباء پروری کا شاہکار بنے نظر آرہے ہوں‘ عوام کیلئے آسانیوں کی بجائے مشکلات پیدا کی جارہی ہوں تو ’’وہ حبس ہے کہ لُوکی دعا مانگتے ہیں لوگ‘‘ کے مصداق عوام اس حبس کا باعث بننے والے لوازمات سے خلاصی پانے کا ہی چارہ کرینگے۔ کراچی اور پشین (بلوچستان) کی تین صوبائی نشستوں پر ہونیوالے حالیہ ضمنی انتخابات کے نتائج عوام کی جانب سے ’’لُو‘‘ کی دعا مانگنے کے ہی عکاس ہیں۔ بھلے یہ نشستیں پیپلزپارٹی اور جے یو آئی (ف) ہی کی تھیں‘ آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ نشستیں ہار کر ہمیں کون سا خسارہ ہوا ہے مگر جناب! آپ کے امیدواروں کی ضمانتیں تک ضبط ہو جائیں تو آپ کو ’’کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا غائبانہ کیا‘‘ کا ادراک کرلینا چاہیے۔ آج بروز جمعۃ المبارک آ کا ڈسکہ میں این اے 75 کی خالی نشست کے ضمنی انتخاب میں بھی اپوزیشن کے ساتھ دست پنجہ ہو رہا ہے۔ اسکے نتائج آپ سے اپنے معاملات پر سنجیدگی کے ساتھ غوروفکر کے متقاضی ہونگے۔ اور آپکے حلیف چودھری شجاعت حسین کے بیان کا لبِ لباب بھی یہی ہے کہ ’’دامن کو ذرا دیکھ‘ ذرا بند قبا دیکھ‘‘۔ اگر اڑھائی سال کے عرصہ میں مہنگائی کا گراف بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے‘ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق کرپشن کا ناگ پہلے سے بھی زیادہ جوش کے ساتھ پھن پھیلاتا نظر آرہا ہے‘ پبلک سروس کمیشن کے اہلکاروں ہی کے ہاتھوں میرٹ کا جنازہ نکل رہا ہے۔ ایک معمولی درجے کی خالی اسامی کیلئے پی ایچ ڈی امیدواروں سمیت عملاً لاکھوں بے روزگاروں کی درخواستیں موصول ہو رہی ہیں جس کا اندازہ پاکستان الیکشن کمیشن کی چند خالی اسامیوں پر موصول ہونیوالی ساڑھے چار لاکھ درخواستوں سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے اور پھر بھوک سے عاجز آئے لوگ چور ڈاکو‘ راہزن بن رہے ہیں یا خودکشی کا راستہ اختیار کرکے خود کو موت کی جانب دھکیل رہے ہیں تو جناب اس اڑھائی سال کے عرصہ میں عوام کی عملاً بس ہو چکی ہے۔ انہیں اپنا اور اپنے بچوں کا مستقبل اسی طرح تاریک ہوتا نظر آئیگا تو شاعر مشرق علامہ اقبال نے اپنے اس شعر کے ذریعے انہیں راستہ دکھایا اور سمجھایا ہوا ہے کہ…؎
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو
آپ اپنے حلیف چودھری شجاعت کی تڑپ کی جانب کان دھریئے اور سلطانیٔ جمہور کو جمہور کے ہاتھوں راندۂ درگاہ ہونے سے بچا لیجئے ورنہ تاریخ بہت بے رحم اور ظالم ہوتی ہے۔ وہ پل پل کا نتارہ کرتی رہتی ہے۔ عوام میں یہ احساس اجاگر نہ ہونے دیجئے کہ…؎
آپ تے پیویں بُکاں شربت
سانوں گھُٹ گھُٹ زہر پلاویں
یہ احساس اجاگر ہوگیا تو ’’کاخِ امراء کے درودیوار ہلا دو‘‘ والا منظر بن جائیگا۔
٭…٭…٭