ضرورت ہے ’’فرمانِ امروز‘‘ کی
Feb 23, 2021

ہماری سیاست و عدالت میں اس وقت جو انہونیاں ہو رہی ہیں وہ کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ نظر آرہی ہیں۔ خدا خیر کرے مگر خیروالا کوئی معاملہ بنتانظر نہیں آرہا۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کا فل بنچ سینٹ کے انتخابات شوآف ہینڈز کے ذریعے کرانے کیلئے حکومت کے دائر کردہ ریفرنس کی سماعت کررہا ہے اور وفاق اور صوبوں کے نمائندگان کے علاوہ پاکستان الیکشن کمیشن بھی کٹہرے میں کھڑا ہے۔ یقیناً آئندہ چند روز تک اس کیس کا فیصلہ صادر ہو جائیگا بصورت دیگر آئندہ ماہ مارچ کے پہلے ہفتے میں ہونیوالے سینٹ انتخابات پر اس فیصلے کا اطلاق نہیں ہو پائیگا۔ حکومت اپنے تئیں صدارتی آرڈی ننس کے ذریعے شو آف ہینڈز کے ذریعے سینٹ انتخابات کا اہتمام کرچکی ہے تاہم اس آرڈی ننس کا اطلاق عدالتِ عظمیٰ کے فیصلہ کے ساتھ مشروط ہے۔ حکومت شو آف ہینڈز کا طریقہ انتخاب ان انتخابات میں ووٹوں کی خریدوفروخت روکنے کی نیت سے رائج کرنا چاہتی ہے مگر صرف سینٹ کے موجودہ انتخابات ہی کو اس لعنت سے بچانا چاہتی ہے جس کیلئے صدارتی آرڈی ننس میں طے کردیا گیا ہے کہ اس آرڈی ننس کا اطلاق سینٹ کے صرف مارچ کے حالیہ انتخابات پر ہوگا۔ 

عدالت عظمیٰ کے روبرو اس معاملہ پر بہت لے دے ہورہی ہے اور فاضل ججوں کے ریمارکس سے سینٹ انتخابات میں جو ممکنہ پابندی عائد ہوتی نظر آرہی ہے وہ الیکشن کمیشن کو اس امر کا پابند بنانے کی ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں جس جماعت کی جتنی نشستیں ہیں انکے مطابق متناسب نمائندگی کی بنیاد پر سینٹ کی نشستیں یقینی بنائی جائیں اور کسی جماعت کی زیادہ یا کم نشستیں ہوں تو یہ ہارس ٹریڈنگ کا شاخسانہ ہوگا جس کیلئے الیکشن کمیشن جوابدہ ہوگا۔ 

سینٹ کی حد تک متناسب نمائندگی کا طریق انتخاب تو آئین کی دفعہ 59 شق دو میں متعین ہے جس میں واضح طور پر قرار دیا گیا ہے کہ سینٹ کی خالی نشستوں کے انتخابات سنگل ٹرانسفر ایبل ووٹ کے تحت متناسب نمائندگی کی بنیاد پر ہونگے۔ فاضل عدالت عظمیٰ بھی یقینًا اسی تناظر میں سینٹ انتخابات متناسب نمائندگی کے تحت یقینی بنانے پر زور دے رہی ہے اور اس حوالے سے عدالت عظمیٰ کے روبرو یہ سوال پیدا ہوا ہے تو کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ متناسب نمائندگی والے طریق کار کے تحت انتخابات کا تردد کرنے کی بھی کیا ضرورت ہے۔ اسمبلیوں میں جس جماعت کی جتنی نشستیں موجود ہیں‘ انکے تناسب سے ان پارٹیوں میں سینٹ کی نشستیں دے دی جائیں۔ اس طرح شو آف ہینڈز کے طریقہ کار کے تحت ارکان اسمبلی کی آزمائش کی نوبت بھی نہیں آئیگی اور خفیہ رائے شماری کے تحت بیلٹ بکس کے سامنے کسی رکن کا ’’ضمیر‘‘ بھی نہیں جاگے گا۔ بس پارٹی ہیڈ کے پاس سیاہ و سفید کا اختیارہوگا کہ وہ سینٹ میں متعینہ اپنی پارٹی کی نشستوں پر کسے نامزد کرکے ایوان بالا میں بھجواتا ہے۔ 

ویسے تو اس بحث کے تناظر میں عوامی حلقوں میں یہ بحث بھی چل رہی ہے کہ سینٹ کی ضرورت ہی کیا ہے۔ اس میں کون سا عوام کی فلاح کے کام ہوتے ہیں۔ بس اس ادارے کیلئے منتخب ارکان اسمبلی کی منڈیاں لگی ہوئی ہیں جن سے ووٹ خرید کر سینیٹر بننے والے ساہوکار عوام کی خدمت تھوڑی کرینگے۔ وہ تو بس اپنی لاگت بمعہ سود نکالنے میں ہی مگن رہیں گے۔ اسی طرح ایک سوچ ملک کے تمام انتخابات متناسب نمائندگی کے تحت کرانے کی پنپ رہی ہے جس کیلئے بہرصورت آئین میں ترمیم کرنا پڑیگی۔ مگر حضور والا! متناسب نمائندگی کا طریق انتخاب تو پارٹی ہیڈ کو کُلی اختیارات کا مالک بنا دیتا ہے۔ جس پارٹی کے حق میں جتنے مجموعی ووٹ آئینگے‘ اسکے تناسب سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستیں پارٹی ہیڈ کے ہاتھ میں آجائیں گی۔ اور ہمارے موجودہ کلچر میں جہاں انتخابی ٹکٹیں بھی پارٹی فنڈ کے نام پر لاکھوں میں فروخت کی جاتی ہیں اور یہ پارٹی فنڈ پارٹی ہیڈ کے ہی دست قدرت میں ہوتا ہے ‘آپ بھلا توقع کر سکتے ہیں کہ پارٹی ہیڈ ے ہاتھ میں موجود قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستیں بغیر بھائو تائو کے محض میرٹ کی بنیاد پر دی جائیں گی۔ سو متناسب نمائندگی کیلئے پہلے آئینی ترمیم اور پھر پارٹی ہیڈ کے لامتناہی اختیارات پر کٹ لگانے کیلئے بھی آئینی ترمیم اور پھر اس کا اطلاق۔ یہ تو غالب کے اس شعر والا ہی معاملہ ہے کہ…؎

پہلے تو روغنِ گل بھینس کے انڈے سے نکال 
پھر دوا جتنی ہے کُل بھینس کے انڈے سے نکال

کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی۔ مگر کرنا ہو تو فاضل چیف جسٹس کے ذہنِ رسا نے شو آف ہینڈ کے طریق انتخاب کیلئے یہ منطق بھی ڈھونڈ نکالی ہے کہ سینٹ کا احاطہ کرنیوالی آئین کی دفعہ 59 کی کسی شق میں بھلا کہاں درج ہے کہ یہ انتخابات خفیہ رائے شماری کے تحت ہونگے۔ حضور ہم یہ سوال اٹھانے کی جرأت کہاں سے لائیںکہ اس آئینی دفعہ کی کسی شق میں کیا شو آف ہینڈز کے طریق انتخاب کا کہیں ذکر ہے۔ جب آئین کی دفعہ 226 میں واضح طور پر متعین کر دیا گیا ہے کہ وزیراعظم اور وزراء اعلیٰ کے سوا ملک میں تمام انتخابات خفیہ رائے شماری کے تحت ہونگے تو سینٹ کے انتخابات اس سے مبرا تو نہیں۔ متذکرہ ریفرنس کی سماعت کے دوران تو عدالت عظمیٰ میں فاضل بنچ کی جانب سے یہ سوال بھی اٹھادیا گیا کہ آئین کی دفعہ 63 کے تحت نااہلیت کا اطلاق سینٹ کیلئے نہیں ہوتا۔ اس معاملہ میں مجھے اپنی ناقص عقل پر ہی غصہ آئیگا جب میں دفعہ 63 کی یہ دوٹوک عبارت پڑھوں گا کہ ہر وہ شخص مجلسِ شوریٰ (پارلیمنٹ) کا رکن بننے کا نااہل ہوگا جو اس دفعہ کی کسی بھی شق کی زد میں آئیگا۔ اگر پارلیمنٹ قومی اسمبلی اور سینٹ کا مجموعہ ہے تو سینٹ کو اس آئینی دفعہ سے کسی بھی توجیہہ کی بنیاد پر کیسے باہر نکالا جا سکتا ہے۔ آئین کی دفعہ 63 کی ذیلی دفعہ سی ون اور اسی طرح اسکی دوسری تمام شقوں کا اطلاق سینٹ کی رکنیت کیلئے بھی ہوتا ہے۔ آئین کو موم کی ناک بنا کر تو اسکی تشریح نہیں ہو سکتی۔ 

اگر ہمارے انتخابی طریق کار میں سارا معاملہ ’’غتربود‘‘ کا ہی ہے تو پھر سینٹ ہی کیا‘ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی اور انکے انتخابات کرانے کی بھی کیا ضرورت ہے۔ ڈسکہ کے ضمنی انتخاب میں وضع کئے گئے طریق انتخاب کی نادر مثال ہمارے سامنے آچکی ہے اس لئے ووٹروں کو زحمت کیا دینی کہ وہ بعد میں ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کی شیطانی پر اتر آتے ہیں۔ آپ پولنگ سٹیشن اور پولنگ بوتھ بنانے کی زحمت سے بھی اور اس پر اٹھنے والے اخراجات سے بھی بچیں۔ اور آپ کو اپنی مرضی کے نتائج کیلئے ووٹوں کے تھیلوں سمیت انتخابی عملہ کو اٹھا کر لے جانے کی زحمت سے بھی دوچار نہیں ہونا پڑیگا۔ بس ہر حلقہ کا انتخابی عملہ متعین کردیں۔ اسکے ہاتھ میں انتخابی فہرستیں اور ووٹوں کی پرچیاں تھما دیں۔ بس اتنا بتا دیں کہ ڈالے گئے ووٹوں کی شرح (ٹرن آئوٹ) کیا ظاہر کرنی ہے۔ اسکے حساب سے انتخابی عملہ خود ہی ووٹوں کی پرچی پر متعلقہ امیدوار کے حق میں مہر لگاتا اور اسے بیلٹ بکس میں ڈالتا رہے گا۔ اسے سخت دھند میں پولنگ بیگ سمیت گن پوائنٹ پر کسی کے ساتھ جانے اور غائب ہونے کا کوئی بے ہودہ عذر تراشنے کی مشقت سے بھی نہیں گزرنا پڑیگا اور الیکشن کمیشن کیلئے بھی ایسے کسی معاملہ پر خفگی کا اظہار کرنے اور اسکے باعث کوئی پریشانی اٹھانے کی نوبت نہیں آئیگی۔ جب ساری قدریں ہی بدلنے کا معاملہ چل رہا ہے تو ریاستی‘ ادارہ جاتی معاملات میں کوئی ’’فرمانِ امروز‘‘ تو جاری ہونا چاہیے۔ وماعلینا الالبلاغ۔
    Bookmark and Share   
       Copyright © 2010-2011 Saeed Aasi - All Rights Reserved info@saeedaasi.com