سپریم کورٹ کی حتمی رائے۔ اب اپنا کتھارسس کر لیں
Mar 02, 2021

یار لوگ کسی نہ کسی معاملہ کو اپنی خواہش کے مطابق تعبیر کرنے کے لیے اپنی ’’کھوجی‘‘ سوچ کے گھوڑے دوڑانا شروع کر دیتے ہیں۔ کبھی حکومت کے لئے ’’ستّے خیراں‘‘ کا سماں باندھا جاتا ہے۔ کبھی اپوزیشن کو کہیں سے آشیرباد ملتی دکھا دی جاتی ہے اور کبھی سلطانی جمہور کے لپیٹے جانے کا ماحول بنا دیا جاتا ہے۔ 

اقبال بڑا اپدیشک ہے ، من باتوں میں موہ لیتا ہے 
گفتار کا غازی تو یہ بنا، کردار کا غازی بن نہ سکا 

ایسے غازیوں کو ڈسکہ ضمنی انتخاب کے حوالے سے الیکشن کمشن کے فیصلہ کی بنیاد پر اس کے خودمختاری والے تشخص سے ’’پس پردہ‘‘ کئی کہانیاں ڈھونڈ نکالنے کا موقع ملا۔ سینیٹ کے اوپن بیلٹ کے تحت انتخابات کے لیے سپریم کورٹ میں دائر کردہ حکومتی ریفرنس کی سماعت کے دوران فاضل بنچ کی جانب سے اوپن بیلٹ کے لئے دئیے جانے والے ریمارکس پر ان ’’غازیوں کو کایا پلٹتی ہوئی نظر آئی اور ملک کے چاروں صوبوں میں ہونے والے حالیہ ضمنی انتخابات کے نتائج سے تو ’’کھوجیوں‘‘ کی گویا لاٹری نکل آئی۔ بھئی آپ کوئی قیافے لگانے اور اپنی مرضی کے نتائج نکالنے کی بجائے آئین و قانون اور انصاف کی عملداری اور قومی ریاستی اداروں کے لئے آئین میں متعین اختیارات اور حدود و قیود کی پابندی کے قائل اور متقاضی ہو جائیں تو آپ کو اپنی سوچوں کے من مرضی کے گھوڑے دوڑانے اور معروضی حالات کے اپنی خواہشات والے نتائج نکالنے کا موقع ہی نہ ملے۔ ہماری ساری قباحتیں اوردر حقیقت من مرضی والے نتائج کی خواہشات کی ہی پیدا کردہ ہیں

کچھ تو ہوتے ہیں محبت میں جنوں کے آثار
اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں 

سپریم کورٹ میں دائر ریفرنس کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی بنا رہا ہے۔ آئین کی دفعہ 226 کی موجودگی میں خواہشیں رکھنے کے باوجود سینیٹ کے انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے نہیں کرائے جا سکتے تھے اور اوپن بیلٹ کے لئے متذکرہ آئینی دفعہ میں پارلیمنٹ سے دوتہائی اکثریت سے ترمیم کرانے کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں تھا۔ حکومت کا ارادہ خلوص نیت کے ساتھ اوپن بیلٹ کی جانب جانے کا ہوتا تو اس کے لئے قومی اسمبلی میں آئینی ترمیم کا مسودہ لے کر جاتی مگر اس نے کان کو سیدھے ہاتھ سے پکڑنے کی بجائے الٹے ہاتھ کو گھما کر پکڑنے کی کوشش کی۔ اوپن بیلٹ کے لئے ریفرنس لے کر سپریم کورٹ چلی گئی۔ ابھی اس ریفرنس کی سماعت شروع ہی ہوئی تھی کہ حکومت کے عالی دماغوں نے سپریم کورٹ کے فیصلہ کے ساتھ مشروط کرکے اوپن بیلٹ کا صدارتی آرڈی ننس بھی جاری کرا دیا۔ 

میں نہیں سمجھتا کہ ان عالی دماغوں کو سپریم کورٹ میں اسی معاملہ سے متعلق ریفرنس کی سماعت کے دوران صدارتی آرڈی ننس جاری کرنے کے مضمرات کا ادراک نہیں ہو گا کیونکہ یہ اقدام سیدھا سیدھا عدالتی کارروائی میں مداخلت اور اس کی بنیاد پر توہین عدالت کے زمرے میں آتا تھا۔ عدالت عظمیٰ نے پھر بھی نرم رویہ اختیار کیا اور سرکار کو یہ باور کرانے پر اکتفاء کیا کہ اگر اس آر ڈی ننس کے نفاذ کو عدالتی فیصلہ کے ساتھ مشروط نہ کیا جاتا تو ہم اسے کالعدم قرار دینے میں ذرہ بھر دیر نہ لگاتے۔ حضور۔ یہ آر ڈی ننس تو آئین کی روح کے بھی سراسر منافی تھا کیونکہ آئین نے اپنی حفاظت کا ذمہ بھی یہ قرار دے کر خود لے رکھا ہے کہ آئین کی کسی شق کے منافی کوئی قانون ، ایکٹ یا آرڈی ننس نافذ العمل نہیں ہو سکتا۔ اس تناظر میں اوپن بیلٹ والا صدارتی آرڈی ننس سیدھا سیدھا آئین کی دفعہ 226 کو بائی پاس کر کے جاری کیا گیا جو آئین کو توڑنے موڑنے کے زمرے میں بھی آتا ہے۔ آپ منتخب پارلیمنٹ کے ہوتے ہوئے اس کے ذریعے آئینی تقاضے کے مطابق آئین کی کسی شق میںترمیم کے بجائے اسے لپیٹ کر دوسرے راستوں سے اپنی خواہشات کی تکمیل کا قدم اٹھائیں گے تو آپ پارلیمنٹ کی تحقیر کا بھی اہتمام کریں گے۔ 

اسی بنیاد پر میری شروع دن سے یہی رائے تھی کہ حکومت کو اوپن بیلٹ کے لئے بہرصورت پارلیمنٹ سے آئین کی متعلقہ شق میں ترمیم کرانا ہو گی اور اس کے دائر کردہ ریفرنس میں سپریم کورٹ بھی حکومت کو یہی راستہ دکھائے گی۔ سو ایسا ہی ہوا۔ آپ عدالتی ریمارکس پر ہی اپنی فتح کے ڈونگرے برسانے لگے جبکہ عدالتی ریمارکس تو معاملہ کی تہہ تک پہنچنے اور کوئی قانونی و آئینی سقم نہ رہنے دینے کے لئے ادا کئے جاتے ہیں۔ آئین کی دفعہ 226 نے واضح طور پر متعین کر دیا ہے کہ وزیراعظم اور وزرا اعلیٰ کے سوا تمام انتخابات خفیہ رائے دہی کے تحت ہوں گے تو اس آئینی دفعہ میں پارلیمنٹ کے ذریعے ترمیم کے بغیر آپ سینٹ انتخابات کے لئے شو آف ہینڈز کا طریق کار کیسے اختیار کر سکتے ہیں سو آپ کے ریفرنس میں سپریم کورٹ نے بھی آپ کو آئین کی پاسداری کا ہی راستہ دکھایا جس کی بنیاد پر شو آف ہینڈز کے لئے آپ کا نافذ کردہ صدارتی ریفرنس بھی ازخود غیر موثر ہو گیا۔ اس بیکار ایکسرسائز میں آپ کو کتنے نفلوں کا ثواب ہوا۔ اب آپ اس پر ہی خوش ہوتے رہیں کہ عدالت عظمیٰ نے الیکشن کمشن کو انتخابات کی شفافیت یقینی بنانے کی ہدایت تو کر دی ہے اور یہ تو قرار دے دیا ہے کہ خفیہ رائے دہی ہمیشہ کے لئے خفیہ نہیں رکھی جا سکتی۔ 

ارے جناب، انتخابات کی شفافیت یقینی بنانا ہی تو الیکشن کمشن کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ الیکشن کمشن نے اس ذمہ داری کو نبھاتے ہوئے حلقہ این اے 75 ڈسکہ کا ضمنی انتخاب دوبارہ کرانے کی ہدایت کی ہے تو لٹھ لے کر الیکشن کمشن پر بھی چڑھ دوڑے ہیں۔ اسی طرح فاضل عدالتِ عظمیٰ نے خفیہ رائے شماری کے تادیر برقرار نہ رہنے سے متعلق رائے بھی مروجہ قانون کے مطابق قائم کی ہے جس کے تحت ایک مخصوص عرصہ کے بعد کوئی بھی شہری کسی سیکرٹ سرکاری دستاویز کے معائنہ کی درخواست مجاز اتھارٹی کو دے سکتا ہے۔ آپ اس قانون کے تحت خفیہ رائے شماری کا بھی مخصوص عرصہ کے بعد جائزہ لے سکتے ہیں۔ 

شو آف ہینڈز کے تحت آپ کا مقصد تو معزز ارکان اسمبلی کی خرید و فروخت روکنے کا ہے جس میں آپ کے اپنے ارکان اسمبلی بھی لتھڑے ہوئے پائے گئے ہیں تو اس کے لئے آپ ’’ہینگ لگے نہ پھٹکڑی ‘‘ اور رنگ بھی چوکھا ہو‘‘ والا طریق کار آپ کو پنجاب اسمبلی کی حد تک چودھری پرویز الٰہی نے سمجھا دیا جن کی سیاسی حکمتِ عملی سے حکمران پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) کے ’’فالتو‘‘ امیدوارانِ سینیٹ دستبردار ہو گئے اور اس طرح اسمبلی میں موجود دونوں کی نشستوں کی مناسبت سے ان دونوں جماعتوں کو انتخابی عمل سے گزرے بغیر ہی سینیٹ کی پانچ نشستیں مل گئیں۔ اس طرح بھائو تائو کے لئے پرتولنے والے ارکانِ پنجاب اسمبلی ہاتھ ملتے رہ گئے۔ یہ حکمت عملی بلاشبہ خس کم جہاں پاک والی ہے۔ آپ ہارس ٹریڈنگ کی لعنت کو روکنا چاہتے ہیں تو سینیٹ کے کل -3 مارچ کے انتخابات میں قومی اور دوسری صوبائی اسمبلیوں میں بھی پنجاب کی قائم کردہ روایت پر باہم متفق ہو جائیں۔ قومی اسمبلی میں سینیٹ کی وفاقی نشست پر اگر حکومتی اتحادی اس کا ساتھ نہیں دیتے تو حکومت کو خود ہی اس کا سنجیدگی سے جائزہ لینا چاہئے کہ اس کی نوبت کیوں آئی۔ اداروں پر لٹھ لے کر چڑھ دوڑنے کی بجائے اپنا کتھارسس کر لیا جائے تو مستقبل کی سیاست کے لئے اس کے اچھے نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔
    Bookmark and Share   
       Copyright © 2010-2011 Saeed Aasi - All Rights Reserved info@saeedaasi.com