سینٹ انتخابات کے اسباق
Mar 05, 2021

سینٹ انتخابات کی شورا شوری میں کئی معاملات زورازوری ہوگئے ہیں جو ارباب اختیار و اقتدار کے ساتھ ساتھ اربابِ حزب اختلاف‘ سلطانیٔ جمہور سے منسلک تمام فریقین‘ اربابِ عقل و دانش اور مجموعی طور پر پوری قوم کیلئے سنجیدگی کے ساتھ غوروفکر کے متقاضی ہیں۔ اسی طرح سینٹ انتخابات سے جو فوری طور پر اور آئندہ کی سیاست میں اثرپذیر ہونیوالے نتائج اخذ ہوئے ہیں‘ ان کا بھی سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ آج ان سطور میں اسی حوالے سے میں خامہ فرسائی کی کوشش کروں گا۔ 

ان انتخابات کے نتائج سے جو تاثر فوری طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے وہ یہ ہے کہ موجودہ سیٹ اپ میں اپوزیشن کو حکومت پر اخلاقی برتری حاصل ہو گئی ہے۔ بے شک قومی اسمبلی میں حکومتی پارٹی اور اتحاد میں ڈنٹ پڑنے کے باوجود سرکاری بنچوں کے پاس عددی اکثریت موجود ہے اور کل کو وزیراعظم عمران خان کیلئے اعتماد کا ووٹ لینے کی نوبت آتی ہے جس کا وہ اعلان بھی کرچکے ہیں اور اسی طرح ہائوس میں وزیراعظم کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش ہوتی ہے تو سینٹ میں سیدیوسف رضا گیلانی کو جتوانے جیسے نتائج حاصل کرنا اپوزیشن کیلئے خاصہ مشکل ہوگا۔ البتہ حکومت کیلئے یہ لمحۂ فکریہ ضرور ہے کہ قومی اسمبلی میں سرکاری بنچوں کی 181 والی عددی اکثریت کم ہو کر 174 تک آگئی ہے کیونکہ اسلام آباد سے سینٹ کی خاتون نشست پر حکومتی خاتون امیدوار کو اپوزیشن کے 161 ووٹوں کے مقابلے میں 174 ووٹ ملے ہیں۔ اسکے برعکس اپوزیشن بنچوں کی ہائوس کے اندر پوزیشن مستحکم ہو گئی ہے کیونکہ اسلام آباد کی جنرل نشست پر اسکے امیدوار سید یوسف رضا گیلانی نے اپوزیشن بنچوں کی مجموعی تعداد 161 سے آٹھ ووٹ زیادہ حاصل کئے ہیں جو لامحالہ سرکاری بنچوں سے آئے ہیں۔ ان میں حکمران پی ٹی آئی کے ارکان بھی شامل ہو سکتے ہیں اور حکومتی اتحادیوں کے بھی۔ حکومت کی جانب سے سات ووٹ مسترد ہونے کا ڈھنڈورا تو زیادہ پیٹا جارہا ہے مگر اس جانب توجہ نہیں دی جا رہی کہ حکومتی امیدوار حفیظ شیخ کے مقابل اپوزیشن امیدوار سید یوسف رضا گیلانی نے اپوزیشن بنچوں کے مجموعی ووٹوں سے بھی آٹھ ووٹ زیادہ لے لئے ہیں جو سرکاری بنچوں سے نہ کھسکتے تو حکومتی امیدوار کی جیت یقینی تھی جس کیلئے حکومتی اکابرین بشمول وزیراعظم کی جانب سے حفیظ شیخ کی شان میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہوئے اور حکومتی صفوں میں مثالی اتحاد کے نقشے کھینچتے ہوئے دعوے کئے جارہے تھے۔ اگر کل کو وزیراعظم پر اعتماد یا عدم اعتماد کے معاملہ میں بھی سرکاری بنچوں سے کھسکنے والے ارکان کی یہ سوچ برقرار رہی کہ…؎

جو بھی آوے‘ تیرے پہلو میں جگہ پاوے ہے
میں کہاں تک تیرے پہلو سے کھسکتا جائوں

تو حضور! ہائوس میں عددی اکثریت کے باوجود سید یوسف رضا گیلانی والے نتیجے کی طرح آپ کو لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں۔ آپ ووٹوں کی خریدوفروخت کا معاملہ تو ایک طرف رکھیئے کہ اس میں بھی آپ ہی کیلئے سبکی کا اہتمام ہے کیونکہ ووٹ فروخت کرنیوالے ’’مقدس جانوروں‘‘ میں زیادہ تر آپ کے اپنے لوگ ہی شامل ہیں۔ اگر آپ کی صفوں میں سے کسی نے ووٹ فروخت کرنے کے برعکس حکومتی پالیسیوں سے عاجز آئے اور زندہ درگور ہوئے عوام الناس کے دکھ درد کا احساس کرتے ہوئے اپنے ضمیر کی آواز پر حکومتی امیدوار کو ووٹ دینے سے گریز کیا ہے تو ووٹ فروخت کرنیوالے ضمیر فروشوں کو مطعون کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے ضمیر کی آواز پر حکومت مخالف ووٹ دینے والوں کی سوچ کا ملک میں مہنگائی‘ بے روزگاری کی فراوانی کرنیوالی حکومتی پالیسیوں کے ساتھ موازنہ کرکے اصلاحِ احوال کی کوئی صورت پیدا کریں۔ 

اگر اس فضا میں آپ اپنی مقبولیت کے زعم میں اعتماد کا ووٹ لینے کی خوش گمانی کی طرح اسمبلیاں توڑ کر نئے انتخابات کیلئے عوام کے پاس جانے کا سوچیں گے جس کا بعض حکومتی حلقوں کی جانب سے عندیہ بھی مل رہا ہے تو حضور! حالیہ ضمنی انتخابات کے نتائج سے بھی برے نتائج آپ کا استقبال کرتے نظر آئیں گے۔ 

اب گزشتہ روز کے سینٹ انتخابات کے نتائج کے تناظر میں سینٹ کی موجودہ پوزیشن کا جائزہ لیتے ہیں۔ حکومت کا خیال تھا کہ ان انتخابات کے نتائج اسے سینٹ میں بھی اپنی مرضی کی قانون سازی کے قابل بنا دیں گے مگر سینٹ میں اپوزیشن کی عددی اکثریت میں ڈنٹ پڑنے کے باوجود اسے توڑا نہیں جا سکا اور اس وقت بھی سینٹ میں اپوزیشن کے پاس 54‘ اور سرکاری بنچوں کی 47 نشستیں ہیں جبکہ سینٹ میں موجود چھ آزاد ارکان بھی ہوا کا رخ دیکھ کر ہی فیصلہ کرینگے۔ چنانچہ سینٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کیلئے اپنے بندے منتخب کرانا اپوزیشن کیلئے کوئی جان جوکھوں والا کام نہیں ہوگا کیونکہ اس وقت چیئرمین سینٹ کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک ناکام بنانے والا ڈیڑھ سال قبل کا چھومنتر کارگر ہوتا نظر نہیں آرہا۔ اگر یہ چھومنتر اس وقت بھی اثرپذیر ہوتا تو مضبوط سرکاری امیدکار عبدالحفیظ شیخ کو سینٹ انتخابات میں ناکامی و نامرادی کا سامنا ہرگز نہ کرنا پڑتا۔ 

پھر آپ تصور کیجئے کہ ایوان بالا میں اپوزیشن بنچوں کی عددی اکثریت ہوگی اور چیئرمین کی نشست پر سید یوسف رضا گیلانی اور اسی طرح ڈپٹی چیئرمین کی نشست پر بھی اپوزیشن اتحاد میں سے کوئی بندہ منتخب ہوکر بیٹھا ہوگا تو آپ کی کوئی زورازوری بھلا کہاں کام آئیگی۔ 

بے شک سینٹ انتخابات کے موجودہ عمل میں ہارس ٹریڈنگ میں لتھڑے کئی مقدس چہرے بے نقاب ہوئے ہیں مگر ان میں کئی اپنے ضمیر کی قید سے بھاگے ہوئے بھی شامل ہیں۔ آپ کو مارکیٹ میں آنیوالی ان ’’اجناس‘‘ میں امتیاز تو بہرصورت پیدا کرنا ہوگا۔ آئین کے تحت وہ رکن اسمبلی ہی ڈیفیکشن کی زد میں آئیگا جو وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کے انتخاب میں یا حکومت کے پیش کردہ کسی منی بل میں اپنی پارٹی کے فیصلہ کیخلاف ووٹ دیگا۔ سینٹ کے انتخاب میں ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے یا نوٹوں بھرا بیگ تھامتے ہوئے کوئی حکومتی رکن حکومت مخالف امیدوار کو ووٹ دیگا تو پہلے تو اسے شناخت کرنا ہی مشکل ہوگا۔ اگر کسی ذریعے سے پارٹی قیادت کو ان کا علم ہو بھی جائے تو یہ پارٹی قیادت پر منحصر ہوگا کہ اسکے خلاف کیا تادیبی کارروائی کی جاتی ہے۔ آپ اولین اقدام کے تحت ان لوگوں کو پارٹی سے نکالیں اور ہارس ٹریڈنگ میں ملوث لوگوں کو باقاعدہ سزا دلوانے کیلئے مجاز فورموں پر باقاعدہ مقدمات درج اور دائر کرائیں۔ اب اس کلچر سے باہر نکلیں کہ عدلیہ اور الیکشن کمیشن کی جانب سے اپنے حق میں فیصلہ آئے تو ٹھیک اور اپنے خلاف فیصلہ صادر ہو جائے تو متعلقہ ادارے کی آپ کے ہاتھوں مٹی پلید۔ بھئی تبدیلی کے آثار اور اثرات کہیں پر تو نظر آنے چاہئیں۔ 

اور سب سے آخر میں عوام کیلئے غوروفکر یہ ہے کہ وہ اپنے منتخب نمائندوں کا کڑا احتساب کرنے کی روایت ڈالیں۔ ان کا منتخب کردہ جو نمائندہ ووٹوں کی خرید و فروخت میں ملوث پایا جائے اسے اپنے حلقے میں گھسنے نہ دیا جائے۔ آپ سندھ اسمبلی میں مارکٹائی والے مناظر سے ہٹ کر متعلقین کو راندۂ درگاہ بنانے کی کوئی اچھی مثال بھی قائم کر سکتے ہیں۔ سینٹ انتخابات کے نتائج کو آپ اسی پیرائے میں دیکھیں اور مستقبل کی اچھی سیاست کے راستے نکالیں ورنہ سلطانیٔ جمہور کو دھکا دینے والے راستے تو اپنی جگہ پر موجود اور قائم ہیں۔
    Bookmark and Share   
       Copyright © 2010-2011 Saeed Aasi - All Rights Reserved info@saeedaasi.com