ہماری جمہوریت کا ’’مینوفیکچرنگ فالٹ‘‘
Mar 12, 2021

میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ ہم نے جس جمہوریت کو اوڑھ رکھا ہے‘ اس میں کوئی ’’مینوفیکچرنگ فالٹ‘‘ موجود ہے کہ جہاں سے یہ جمہوریت آئی ہے‘ نہ وہاں کی جمہوری اقدار ہماری جمہوریت میں پنپ پائی ہیں اور نہ ہی سلطانیٔ جمہور کے تصور کے مطابق جمہوریت کے ثمرات سے عوام مستفید ہو پائے ہیں۔ جمہوریت کی اقدار یہ ہیں کہ ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا لازمی تقاضے کے طور پر احترام کیا جائے۔ برطانیہ میں وزیراعظم مارگریٹ تھیچر کو محض ایک ووٹ کی برتری حاصل ہوئی اور انہوں نے اس ایک ووٹ کی عددی اکثریت کے بل بوتے پر ہی اپنے اقتدار کے متعینہ پانچ سال خوش اسلوبی سے گزار لئے۔ اگر جمہوری اقدار میں مینڈیٹ کا احترام ملحوظ خاطر نہ ہوتا تو صرف ایک ووٹ کو دوسری طرف کھسکانے میں کتنی دیر لگتی۔ امریکی صدارتی نظام والی جمہوریت میں بھی ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا بہرصورت احترام کیا جاتا ہے۔ وہاں ویسے ہی خالصتاً دو جماعتی نظام رائج ہے جس میں ہر پارٹی اپنا امیدوار نامزد کرنے کیلئے بھی عوامی رائے حاصل کرتی ہے اور کسی پارٹی قائد کو ازخود امیدوار نامزد کرنے کا قطعاً اختیار نہیں ہوتا اور امریکی عوام نے ری پبلکنز اور ڈیموکریٹس میں سے ہر ایک کو اقتدار کی دو دو ٹرمیں دینے کی روایت مستحکم کی ہوئی ہے۔ وہاں 2000ء میں ڈیموکریٹ الگور اور ری پبلکن بش جونیئر کے مابین صدارتی انتخاب کا مقابلہ ضرور متنازعہ ہوا تھا اور الگور اسے امریکی سپریم کورٹ میں لے گئے تاہم جب امریکی عوام کے بعد سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی بش کے حق میں آیا تو انہوں نے اپنے اقتدار کے نہ صرف پہلے چار سال سکون و اطمینان سے گزارے بلکہ اگلی چار سالہ ٹرم بھی انہی کے حصے میں آئی۔ 

اب ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی جمہوریت اور جمہوری اقدار کو نقب لگانے کی کوشش کی تو امریکی عوام نے انہیں الٹا کر رکھ دیا اور ایک پارٹی کے اقتدار کی دو ٹرموں والی قائم کی گئی اپنی روایت بھی توڑ ڈالی۔ ٹرمپ نے اپنے شرارتی ذہن کیمطابق ڈیموکریٹ جوبائیڈن کی کامیابی کو بھی چیلنج کیا اور اپنے مدمقابل صدر کی حلف برداری میں شریک نہ ہونے کی بری روایت بھی پہلی بار قائم کی مگر بالآخر ری پبلکن پارٹی نے ٹرمپ کی شرارتی سوچ کے برعکس انکی شکست تسلیم کی اور ڈیموکریٹس کا مینڈیٹ قبول کیا۔ اب ٹرمپ بھی سرکشی اختیار کرتے کرتے ’’کینڈے‘‘ میں آچکے ہیں اور امریکہ میں جمہوریت کی گاڑی بدستور رواں دواں ہے۔ 

جمہوریت اوڑھاتے وقت ہماری گھٹی میں نہ جانے کیا ڈال دیا گیا کہ ہم شروع دن سے ہی اس کا مردہ خراب کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ چنانچہ کسی کا اقتدار کا مینڈیٹ ہمیں ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ کسی کو اقتدار سے محروم کرکے کسی دوسرے کو اقتدار میں لانا مقصود ہوتا ہے تو پوری پارٹی میں نقب لگانا بھی چنداں مشکل نظر نہیں آتا۔ اول تو کسی پارٹی کے ’’سنگل مجارٹی‘‘ والے قطعی اکثریتی مینڈیٹ کی نوبت ہی نہیں آنے دی جاتی اور اگر شومئی قسمت یا خوش بختی سے کسی کو قطعی اکثریت والا مینڈیٹ حاصل ہو جائے تو اسے پلٹانے کیلئے اسکی پارٹی کے اندر سے باغی گروپ نکالنا دائیں ہاتھ کا کھیل بن جاتا ہے۔ قطعی اکثریت نہ ہونے کے باوجود اقتدار کی منزل کے قریب پہنچنے والی کسی پارٹی کیلئے اقتدار کی منزل حاصل کرنا فی الواقع جان جوکھوں کا کام ہوتا ہے۔ چنانچہ یہ مراحل طے کرنے کیلئے ہی ہماری جمہوریت میں ہارس ٹریڈنگ کو گھسیڑا گیا جس نے سیاسی‘ اخلاقی‘ قانونی‘ آئینی روایات سمیت ہر سیاسی قدر کو دھوبی پٹڑا مار دیا۔ اس گندے کھیل کے باعث جمہوریت کی گاڑی کو ٹریک سے اتارنا آسان عمل بنا رہا ہے اور عوام بھی ماورائے آئین اقدامات کو یہ سوچ کر قبول کرتے رہے ہیں کہ…؎

کیا اسی زہر کو تریاق سمجھ کر پی لیں
ناصحوں کو تو سجھائی نہیں دیتا کچھ بھی 

موجودہ اقتداری قیادت نے زہر کو تریاق سمجھ کر پینے سے عوام کو روکنے کیلئے ہی اور اقتدار کی موروثی سیاست کو نکیل ڈالنے کے عزم کے تحت ہی اقتدار کی سیاست میں قدم رکھا تھا چنانچہ جمہوریت کو بدچلنی کے راستے پر ڈالنے والے سیاست کاروں کو راندۂ درگاہ بنانے کا جذبہ اپنے پلّو سے باندھ کر عوام نے ’’گرتی ہوئی دیواروں کو ایک دھکا اور دو‘‘ والا کردار ادا کیا۔ مگر بھائی صاحب! اس عمل کے اندر سے بھی تو اسی روایتی سیاست نے جنم لیا جو شروع دن سے ہی ہمارے مقدر کا حصہ بن چکی تھی۔ عوام کے پسندیدہ قائد عمران خان صاحب 2018ء کے انتخابات کی مہم میں یہ اعلانیہ عہد کرتے رہے کہ اگر انہیں قطعی اکثریت والا مینڈیٹ حاصل نہ ہوا تو وہ اپوزیشن میں بیٹھنا قبول کرلیں گے مگر اقتدار کی خاطر کسی بلیک میلنگ میں نہیں آئیں گے۔ انہیں انتخابات میں خیبر پی کے اسمبلی کے سوا قطعی اکثریت والا مینڈیٹ کہیں پر بھی حاصل نہ ہو سکا اور پھر قوم نے دیکھا کہ انہوں نے اقتدار کی خاطر بلیک میل نہ ہونے کا عہد کہاں تک نبھایا۔ پنجاب میں تو انکی پارٹی اقتدار کی دوڑ میں پہلی رو میں بھی شامل نہیں تھی‘ اگر انہوں نے روایتی کلچر کے عین مطابق مرکز اور تین صوبوں میں مسندِ اقتدار تک رسائی حاصل کی تو جناب! سٹیٹس کو توڑنے اور بزرجمہروں کے قائم اور استوار کئے گئے سیاست کے روایتی اٹھائی گیر کلچر کو توڑنے کی ان سے کیا توقع کی جا سکتی تھی۔ سو اس عہد اقتدار میں بھی سیاست کا وہی بے ڈھنگا کلچر ہی حاوی ہے جس میں ہارس ٹریڈنگ کی پھلتی پھولتی لعنتی روایت میں لتھڑے سیاست کاروں کیلئے کسی کا ضمیر خریدنا بس انگلی کے موہوم سے اشارے کا مرہون منت ہو کر رہ گیا ہے۔ 

سینٹ کے حالیہ انتخابات اور اب آج کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینٹ کے انتخاب کے موقع پر ہماری جمہوریت ہر دو جانب سے یہی پکار رہی ہے کہ …؎

اس شہر میں ہر شخص کا ایمان بکا ہے
قیمت مجھے معلوم ہے‘ تم نام بتائو

بھئی اس کا تخمینہ لگانا ہو تو محترم شبلی فراز کے دو روز قبل کے ٹی وی انٹرویو اور انکے اگلے روز کے ٹویٹر پیغام سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے جس میں وہ دوٹوک اعلان کررہے ہیں کہ صادق سنجرانی کو چیئرمین سینٹ بنوانے کیلئے ہم ہر سیاسی‘ جمہوری اور قانونی حربہ اختیار کرینگے۔ اگر وہ یہ باور کرارہے ہیں کہ ’’یہ نہیں ہو سکتا‘ اپوزیشن قانون کی خلاف ورزی کرے اور ہم قانون کے مطابق چلیں‘‘ تو سینٹ چیئرمین کے آج کے انتخاب کے نتائج بھی دیوار پر لکھے نظر آرہے ہیں۔ اپوزیشن کے عددی اکثریت والے سات میں سے بس چار ووٹوں پر ہی تو محنت کرنی ہے جو شبلی فراز صاحب کے بیان کی روشنی میں اب تک ہو چکی ہوگی۔ گویا…؎

تکمیل ضروری ہے‘ اِدھر ہو کہ اُدھر ہو
ناکردہ گناہی بھی گناہوں میں چلی آئے 

پھر ہمیں اپنی جمہوریت کے مینوفیکچرنگ فالٹ کے ساتھ ہی گزارا کرنا ہوگا کیونکہ…؎

کس دا دوش اے‘ کس دا نہیں اے
ایہہ گلاں ہُن کرن دیاں نہیں

٭…٭…٭
    Bookmark and Share   
       Copyright © 2010-2011 Saeed Aasi - All Rights Reserved info@saeedaasi.com