ٹامک ٹوئیاں
Mar 26, 2021

اگر ہم آئین اور قانون کے ضوابط اور تقاضوں کے مطابق کام کر رہے ہوں تو اس میں کسی ابہام ، تشکیک اور توجیح کی گنجائش نہیں نکل سکتی مگر محسوس یہی ہوتا ہے کہ اپنی معاشرت اور اس میں آئین ، قانون ، انصاف کی عملداری کے معاملات میں ہم وطن عزیز کی تشکیل کے 74 سال گزرنے کے بعد بھی بس ٹامک ٹوئیاں ہی مار رہے ہیں۔ ہم نے 81 واں یوم پاکستان کرونا وائرس کے دوران بھی روایتی جوش و جذبے سے منا لیا مگر ہماری اخلاقیات اور سیاسی قدریں ابھی تک مستحکم نہیں ہو پائیں چنانچہ سیاسی میدان میں پوائنٹ سکورنگ اور بلیم گیم کا سلسلہ تسلسل کے ساتھ چل رہا ہے تو ادارہ جاتی سطح پر بھی یہی گھن چکر نمایاں نظر آتا ہے۔ 

سینیٹ کے حالیہ انتخابات نے سٹیٹس کو والے ہمارے فرسودہ نظام کی جو بھد اُڑائی اس سے کم از کم اس مفاداتی اور طبقاتی تقسیم کے شاہکار سسٹم سے خلاصی کا شعور تو عام آدمی کے ذہن میں اُجاگر ہوا ہے۔ اس لئے اگر اب ادارہ جاتی معاملات میں بھی اس پہلو پر بحث مباحثہ کے دروازے کھلتے ہیں تو اس پر کسی کو ناک بھوں چڑھانا چاہئے نہ اپنی نازک انا کا کوئی مسئلہ بنانا چاہئے ، ایسے بحث مباحثہ سے یقیناً آئندہ کے لئے سسٹم کی بہتری اور آئین و قانون کی حقیقی معنوں میں عملداری کی گنجائش نکلتی چلی جائے گی۔ 

سینیٹ انتخابات کے معاملہ میں انفرادی اور ادارہ جاتی سطح پر بعض آئینی شقوں کی اپنی من مرضی کی تشریح و توجیح سے ہمارے اب تک اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے کے تاثر کوہی تقویت ملی ہے۔ ایسی تشریحات و توجیہات یقیناً بلامقصد نہیں ہوتیں ، کہیں ایک دوسرے کے مفادات وابستہ ہوتے ہیں اور کہیں ایک دوسرے کے خلاف روایتی محاذ آرائی من مرضی کے نتائج کے راستوں پر چلائے رکھتی ہے۔ اسی تناظر میں حکومت کے گورننس کے معاملات میں سینیٹ انتخابات شو آف ہینڈز کے ذریعے کرانے کا سودا سمایا چنانچہ پارلیمنٹ کی آئینی برتری تو کجا ، اس کی آئینی حیثیت ہی کو یکسر نظرانداز کر کے اس سے وابستہ حکمران طبقات ایک صدارتی ریفرنس بنا کر سپریم کورٹ چلے گئے۔ ’’کمال‘‘ کرنے کے جذبہ نے مزید مہمیز لگائی تو سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت ریفرنس کے دوران ہی شو آف ہینڈز کے طریق کار کے لئے صدارتی آرڈی ننس بھی جاری کرا دیا گیا۔ آئین کی دفعہ 226 نے تو واضح پابندی لگائی ہوئی ہے کہ وزیر اعظم اور وزراء اعلیٰ کے سوا ملک کے تمام اور ہر سطح کے انتخابات خفیہ رائے شماری کے تحت ہوں گے مگر اس واضح آئینی دفعہ کے باوجود مفاداتی کش مکش میں سینیٹ انتخابات کے لئے شو آف ہینڈز کا راستہ اختیار کر لیا گیا اس طرح دانستہ طور پر پارلیمنٹ اور آئین کی بے توقیری کی گئی اور پھر سپریم کورٹ میں ریفرنس لے جا کر اسے بھی آزمائش میں ڈال دیا گیا۔ 

آئین کی دفعہ 226 کی موجودگی میں سپریم کورٹ کے پاس بادی النظر میں اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ موجود نہیں تھا کہ صدارتی ریفرنس حکومت کو واپس لوٹا کر اسے دفعہ 226 کی عملداری اور شو آف ہینڈز کی خاطر اس آئینی دفعہ میں مروجہ طریق کار کے تحت ترمیم کے لئے پارلیمنٹ سے رجوع کرنے کا کہا جاتا مگر ریفرنس کی سماعت کے دوران آئین کی تشریح کے اختیارات کا سہارا لے کر معاملات اُلٹانے کی کوشش کی جاتی رہی۔ بھلا واضح آئینی شق میں سے کسی کو فائدہ پہنچانے والی کوئی توجیح نکالی جا سکتی تھی؟ مگر سسٹم کے لئے ٹامک ٹوئیاں مارتے ہمارے ذہنوں نے ایسی توجیح کی گنجائش بھی نکال لی۔ سینیٹ انتخابات کو دفعہ 226 کے تحت خفیہ رائے شماری کے طریق کار کا پابند بھی کر دیا اور ساتھ یہ پخ بھی لگا دی کہ خفیہ رائے شماری سے ڈالے گئے ووٹ کی ضرورت پڑنے پر شناخت کا بھی کوئی الیکٹرانک طریق کار نکال لیا جائے چنانچہ اس نکتے پر پہلے ہی گھمبیر ہوتی سیاسی محاذ آرائی کی فضا میں ایک دوسرے پر مزید پوائنٹ سکورنگ کی گنجائش بھی نکل آئی۔ اس عمل میں آئین کی تشریح کے مجاز ادارے کے ہاتھوں آئین کی دفعہ 226 کی جو درگت بنی وہ آئین و قانون کی عملداری کو جھٹکے لگانے کے لئے کافی ہے۔ 

معاملہ پارلیمنٹ کی کورٹ کی جانب دھکیلا گیا جہاں پہلے ہی جوتیوں میں دال بٹنے کے مناظر سسٹم کے استحکام کے حوالے سے دل و جگر میں ٹیسیں پیدا کرنے کا اہتمام کئے ہوئے تھے۔ جناب! معاملہ پارلیمنٹ ہی نے طے کرنا ہے اور یقیناً پارلیمنٹ ہی نے طے کرنا ہے تو اس کے اختیارات کو ووٹ کی شناخت والے کسی جبر کے ساتھ باندھنے کی کیا ضرورت تھی۔ 

اب معاملہ چیئرمین سینیٹ کے لئے خفیہ رائے شماری سے پڑنے والے یوسف رضا گیلانی کے سات ووٹوں کو پریذائیڈنگ افسر کی جانب سے تکنیکی بنیادوں پر مسترد کئے جانے پر آئین کی وضاحت کا درپیش آیا ہے تو اس کے لئے آئین کی دفعہ 69 کی پابندی دوٹوک الفاظ میں باور کرا دی گئی ہے کہ اس کے تحت پارلیمنٹ کی کسی کارروائی کو کسی بے ضابطگی کے نام پر کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ چلیں اس سے ایک آئینی ادارے کی برتری تو تسلیم ہوئی مگر یوسف رضا گیلانی کے وکیل تو چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کی کارروائی کو سینیٹ کی ضابطے والی روٹین کی کارروائی میں شامل ہی نہیں سمجھتے جن کے بقول انتخاب کا عمل کسی بے ضابطگی کی بنیاد پر کسی بھی عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ اس پر دیکھیں اعلیٰ عدالتی فورم پر اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ اگر اس فورم پر بھی آئین کی دفعہ 69 کو ڈھال بنایا گیا  اور پارلیمنٹ کی برتری پر مہر تصدیق ثبت کی گئی تو جناب! اس سے کم از کم آئینی ریاستی اداروں کے اپنی اپنی حدود و قیود میں رہنے اور اپنے اپنے آئینی اختیارات ہی استعمال کرنے کے متعینہ راستے کی تو نشاندہی ہو جائے گی۔ گویا…؎

برسوں آنکھوں میں رہے، آنکھوں سے چل کر دل میں آئے 
راہ سیدھی تھی مگر پہنچے بڑے چکر سے آپ 

اگر ٹامک ٹوئیاں مارنے کے اس چکر اور گھن چکر نے ہمیں سات آٹھ دہائیوں بعد بھی آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری کا راستہ سجھا دیا اور اس سے ریاستی ادارہ جاتی نظم و ضبط کو برقرار رکھنے کی سوچ پروان چڑھ گئی تو یقین مانئے ہمیں ’’فرسودہ‘‘ نظام کی تبدیلی کے لئے کسی انقلاب یا لمبے چوڑے تردد کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ چیئرمین سینیٹ کے الیکشن کے حوالے سے اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلہ کی یہ میری اپنی توجیح ہے جو بے شک میری رجائیت پسندی پر مبنی ہے مگر اسے آئین کی عملداری اور پارلیمنٹ کی برتری کے لئے مہر تصدیق بنا لیں تو ہم سسٹم کے حوالے سے سالہا سال سے ماری جانے والی ٹامک ٹوئیوں سے بچ جائیں گے ، پھر ’’ہاتھ کنگن کو آر سی کیا‘‘۔ 

’’عذاب و ثواب‘‘ کا اسی پر فیصلہ کر لیں اور بچ بچا کے دھیمے سُروں میں یہ گنگناتے ہُوئے فلاح پائیں کہ؎

محتسب کی خیر، اُونچا ہے اسی کے فیض سے 
رِند کا ، ساقی کا ، خُم کا ، مے کا، پیمانے کا نام 

٭…٭…٭
    Bookmark and Share   
       Copyright © 2010-2011 Saeed Aasi - All Rights Reserved info@saeedaasi.com