ہم سسٹم کی اصلاح کیلئے جتنے فکر مند ہوتے ہیں‘ اس سسٹم سے وابستہ ہمارے قومی سیاسی قائدین اتنا ہی جستیں بھر کر سسٹم کی مزید خرابی کا اہتمام کردیتے ہیں۔ شاید اصل ایجنڈا ہی کسی اچھے سسٹم سے عوام کو فائدہ نہ پہنچنے دینے کا ہے۔ سینٹ کے انتخابات نے اس حوالے سے بہت کچھ بے نقاب کردیا ہے۔ ہم بحث کرتے رہے کہ ملک میں دو جماعتی طرز کا پارلیمانی جمہوری نظام آزمالیا جائے تو شاید ہماری سیاست میں مفاداتی کرپشن کلچر کا عمل دخل کچھ کم ہو جائے اور مویشی منڈی والے کاروبار میں کہیں نہ کہیں بریک لگ جائے مگر اب تو جماعتوں کے اندر بھی اصلاح احوال کی ضرورت محسوس ہونے لگی ہے کیونکہ اب سیاسی جماعتوں میں نظریاتی اور اصولی سیاست کا تو عملاً جنازہ اٹھ چکا ہے۔ بس اپنے مفادات اور اپنی انائوں کی بنیاد پر سیاست ہو رہی ہے۔ ملک اور قوم کے مفادات تو ہماری آج کی سیاست سے کوئی علاقہ ہی نہیں رکھتے چنانچہ اپوزیشن جماعتیں آج پھر اس پوزیشن پر واپس آگئی ہیں جہاں وہ 2018ء کے انتخابات کے بعد ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونے کی صورت میں وفاق اور صوبوں میں حکومت سازی کی پوزیشن پر آنے کے باوجود اپنی اپنی مفاداتی سیاست کے تابع اکٹھی نہ ہوپائیں اور پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں ایک کے بعد دوسرا الیکشن ہارتی چلی گئیں۔ اس طرح پلیٹ میں رکھا ہوا اقتدار انہوں نے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے جتن میں خود ہی اپنے ہاتھوں سے گنوا دیا۔
آج پونے تین سال بعد جب اپوزیشن جماعتوں کے ایک پلیٹ فارم پی ڈی ایم پر متحد ہونے کے بعد انکے ارکان پارلیمنٹ اجتماعی قوت کے طور پر ابھر کر پانسہ پلٹنے کی پوزیشن میں آچکے تھے تو ہماری قومی سیاسی قیادتوں نے اس نادر موقع کو بھی اپنی انا پرستی کی بھینٹ چڑھا دیا اور جتن سے پکائی گئی کھیر دوسروں کے ہتھے چڑھ گئی۔
انکی انائوں کا جائزہ لیں تو بالکل بچوں والی ضدیں نظر آتی ہیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ بلاوجہ کی بدگمانیوں کے دروازے کھلے رکھ کر تو اتفاق میں برکت نہیں ڈالی جا سکتی۔ ایک دوسرے کو دھوبی پٹڑا لگانے کا سفاک سیاسی کھیل 80ء کی دہائی سے جاری و ساری ہے۔ کبھی گاڑھی چھننے لگتی ہے تو کبھی ایک دوسرے کے پرزے اڑانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی۔ چنانچہ ’’سیاست میں کچھ بھی حرفِ آخر نہیں‘‘ والا سرٹیفکیٹ آج سکۂ رائج الوقت کی طرح چل رہا ہے۔ 90ء کی دہائی والی بدترین محاذآرائی سے یہ احساس ہوا کہ ہم نے تو باہم لڑ کر ان قوتوں کو ہی تقویت پہنچائی ہے جن سے خلاصی کیلئے ہمیں پھر ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو کر طویل جدوجہد کرنا پڑتی ہے تو اس احساس زیاں نے میثاق جمہوریت تک پہنچا دیا۔ عہد باندھا گیا کہ اب ہم کسی کے ماورائے آئین اقتدار کیلئے اپنے کندھے فراہم نہیں کرینگے۔ اپنی اپنی جلاوطنیوں نے ایک دوسرے کیلئے ریشہ خطمی ماحول بنادیا‘ سو قوت پرواز نے زور پکڑا اور ملک واپسی ہونے لگی۔ بیچ میں عمران خان کو ساتھ ملا کر اے پی ڈی ایم کے پھندے سے اے آر ڈی کا گلا بھی گھونٹ دیا گیا مگر جان کنی کی اس کیفیت میں بھی میثاق جمہوریت کو نئی سانس مل گئی اور محترمہ بی بی کی شہادت نے اس سفاک سیاست میں بھائی بہن کے جذبے کو اجاگر کردیا۔ میاں نوازشریف مغموم جیالوں کے دکھ بانٹنے انکے پاس جا پہنچے۔ بی بی کی شہادت پر ہمدردی کے ووٹ نے پیپلزپارٹی کے اقتدار کا راستہ ہموار کیا تو میاں نوازشریف میثاق جمہوریت کی پاسداری میں فرینڈلی اپوزیشن بن گئے اور پھر میموگیٹ در آیا تو میاں صاحب کا ضمیر پھر جاگ اٹھا اور وہ کالاکوٹ پہن کر سپریم کورٹ میں میثاق جمہوریت کو آنکھیں دکھانے لگے۔ اسی آنکھ مچولی اور چھینا جھپٹی میں 2013ء کا انتخابی معرکہ میاں صاحب کی پارٹی نے سر کرلیا تو میموگیٹ والی تلخی اپوزیشن کی سیاست میں سر چڑھ کر بولنے لگی مگر عمران خان کی دھرنا سیاست نے میثاق جمہوریت والوں کو پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ایک دوسرے کے ساتھ سر جوڑ کر بیٹھنے پر مجبور کر دیا۔ اسی دوران پانامہ لیکس درآئیں تو مفاداتی سیاست نے ایک بار پھر شہادت گہہ الفت کو شعبدہ بازی بنادیا۔ میاں صاحب شکوہ سنج ہوئے کہ…؎
جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو
اک تماشا ہوا‘ گلہ نہ ہوا
مگر مفاداتی سیاست میں یہ آہ و فغاں بے سود ثابت ہوئی اور میثاق جمہوریت والے نے بلوچستان اسمبلی میں دھوبی پٹڑا لگا کر سارا منظرنامہ ہی تبدیل کر دیا۔ آج بھی اسی منظرنامہ کو الٹ پھیر کرکے باربار دکھایا جارہا ہے۔ مہرے بھی وہی‘ چال بھی وہی‘ مقاصد بھی وہی اور نتیجہ بھی وہی۔ فرق صرف اتنا آیا ہے کہ میاں صاحب بھی چالاک ہو گئے ہیں اور دھوبی پٹڑا لگانے میں مشاق ہو گئے ہیں۔ یہ ایک دوسرے کو جھاکا دیتے ہیں تو سسٹم کے ثمرات کا تصور اسکے ہاتھوں راندۂ درگاہ ہوئے عوام کی آنکھوں سے اوجھل ہوتا نظر آتا ہے۔
بھئی باہمی ضدیں کیا ہیں۔ ہم سے اسلام آباد کی نشست پر یوسف رضا گیلانی کیلئے ووٹ لے لئے اور ہماری خاتون امیدوار کو ووٹ نہ دے کر ہروا دیا۔ پھر ایسے کو تیسا۔ چیئرمین سینٹ کیلئے تو پی ڈی ایم کا بھرم قائم رکھا مگر ڈپٹی چیئرمین کیلئے مسلم لیگ (ن) کی صفوں میں سے حکمران اتحاد کا امیدوار سامنے آگیا تو اسکی بھاری اکثریت سے کامیابی یقینی بنا دی گئی۔ اب انہوں نے اسی حکمران اتحاد کی مدد سے آپ کو ٹھبّی مار کر سینٹ کی اپوزیشن لیڈری حاصل کرلی ہے تو حضور! یہ باہمی ضدیں ہی تو پالی جارہی ہیں۔ آپ پنجاب میں اپنے حلیفوں کو جھاکا دے کر جس کے ساتھ اتفاق رائے سے اپنے سینیٹر بلامقابلہ منتخب کرالیتے ہیں تو پنجاب میں ممکنہ ان ہائوس تبدیلی کی صورت میں اپنے میثاق جمہوریت والے ساتھی کی جانب سے اسی شخصیت کا نام بطور وزیراعلیٰ لائے جانے پر آپ اپنی انا کے اسیر ہو جاتے ہیں۔ اگر یہ اتفاق رائے تبدیلی کا منظرنامہ بنا دیتا تو اس میں آپ ہی کا فائدہ تھا مگر آپ کی چھوٹی چھوٹی باتوں میں سنسار بٹ گیا۔ آپ اعظم نذیر تارڑ پر اپنی ضد پالتے رہے اور وہ بوٹی لے اڑے‘ سو جتن سے پکائی پی ڈی ایم کی کھیر پر فاتحہ پڑھنے کا وقت آن پہنچا ہے۔ حضور! اس ساری ایکسرسائز میں عوام کوکتنے نفلوں کا ثواب ہوا۔ وہ ہر مفاداتی طبقے کی جانب سے بطور ایندھن استعمال ہو رہے اور سلطانیٔ جمہور کا تماشا لگا ہوا ہے۔ بھئی ہم بھر پائے آپ کی سیاسی شعبدہ بازیوں سے۔ آپ کو اپنے مفادات عزیز ہیں‘ اپنی انائوں سے سروکار ہے اور اپنی ضدوں کا ہی تماشا لگانا ہے تو اس سسٹم سے ہم عوام کا کیا لینا دینا اور اس وطن عزیز کیلئے کیا حاصل حصول۔ آپ اپنے اپنے تماشے لگائے رکھیں۔ عوام سے جو بن پڑے گا‘ وہ بھی کر گزریں گے۔