ہمیں آئین کی پاسداری اور عوام کی فلاح عزیز ہوتی تو کسی کیلئے اپنے دور حکومت میں اسلامی جمہوری فلاحی مملکت کی تشکیل کا تردد کرنے اور پھر اس کا کریڈٹ لینے کی گنجائش ہی نہ نکل پاتی۔ ہمارا آئین تو خود اسلامی جمہوری فلاحی مملکت کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ اس کا بنیادی انسانی حقوق کا چیپٹر جو مجموعی 20 دفعات (8 تا 28) اور پالیسی کے اصولوں سے متعلق چیپٹر جو مجموعی 12 دفعات (29 تا 40) پر مشتمل ہے‘ شہری آزادیوں کے تحفظ کی ضمانت بھی فراہم کرتا ہے‘ اظہار رائے اور تحریر و تقریر کی آزادی کا حق بھی دیتا ہے‘ شرف انسانیت کو مقدم رکھنے کی تلقین بھی کرتا ہے اور ہر شہری کیلئے تعلیم‘ صحت‘ روزگار کی سہولتوں کی بلاامتیاز فراہمی ریاست کی ذمہ داری گردانتا ہے۔ سماجی انصاف ہمارے آئین کی دفعہ 37 کا مطمح نظر ہے اور دفعہ 38 کے تحت عوام کی سماجی اور اقتصادی بھلائی بھی ریاست کی ذمہ داری ٹھہرائی گئی ہے۔
آپ خود ہی تصور کرلیجئے کہ آئین پاکستان کے صرف ان دو ابواب کی انکی روح کے مطابق پاسداری ہو جائے تو اس ملک خداداد کو اسلامی جمہوری فلاحی مملکت کے قالب میں ڈھلنے سے بھلا کوئی روک سکتا ہے جو بانیانِ پاکستان علامہ اقبال اور قائداعظم کا مطمح نظر بھی تھا‘ مگر بھائی صاحب! ہم نے تو بس الٹ پھیر میں مہارت تامہ حاصل کر رکھی ہے…؎
اقبال بڑا اپدیشک ہے‘ من باتوں میں موہ لیتا ہے
گفتار کا غازی تو یہ بنا‘ کردار کا غازی بن نہ سکا
اور ہمارے گفتار کے غازی ہیں بھی ایسے کہ…ع
پیتے ہیں لہو‘ دیتے ہیں تعلیم مساوات
اب سے پہلے والے سارے چور ڈاکو اس ارضِ وطن کو شیرِمادر کی طرح چوس گئے‘ چچوڑ کر کھا گئے‘ قائد و اقبال کے خواب گہنا گئے‘ عوام کے دل محض بہلا گئے اور ہر عذاب و ثواب کا انہی کو ذمہ دار ٹھہرا گئے‘ فلاحی جمہوری مملکت کے بس دعوے ہوتے رہے‘ وعدے وعید چلتے رہے‘ آئین پاکستان کی متعلقہ شقیں عملدرآمد کی متقاضی رہیں۔ آئین کی شارح ہماری اعلیٰ عدالتیں دفعہ 199‘ اور دفعہ 184 کے تحت ’’کووارنٹو‘‘ احکام صادر کرتی رہیں مگر ہمارے حکمران اشرافیہ طبقات کے ہاتھوں اس ارضِ وطن کا فلاحی مملکت میں ڈھلنا لکھا ہی نہیں تھا کیونکہ انہوں نے ملکی اور قومی دولت اور وسائل کی لوٹ مار اپنا حق گردان لیا تھا‘ جھنڈا سلطانیٔ جمہور کا بلند رکھا گیا اور جمہور کی سلطانی کو کبھی قریب بھی پھٹکنے نہیں دیا گیا۔ چنانچہ جتنی بھی خرابیاں کسی انسانی معاشرے میں ممکن ہو سکتی تھیں‘ انہیں ’’قصر شاہی میں غریبوں کا بسر کیا معنی‘‘ کا تصور باندھ کر درآنے کی کھلی چھوٹ دی جاتی رہی۔
چلیں یہ تو سارے ساہوکار‘ دنیادار‘ ریاکار اپنے مطلب کے بندے تھے جنہوں نے اسلامی جمہوری فلاحی ریاست کے تصور والی آئینی شقوں کو عضوِ معطل بنائے رکھا مگر ہمارے موجودہ حکمران تو ’’سٹیٹس کو‘‘ توڑنے کا نعرہ لگا کر میدان عمل میں اترے ہیں‘ تبدیلی‘ انقلاب اور نئے پاکستان کے سہانے خواب کے ٹیکے لگا کر انہوں نے عوام کو اپنے سحر میں مبتلا کیا ہے‘ کرپشن فری سوسائٹی کی تشکیل اپنا منشور بنایا ہے اور وزیراعظم عمران خان کے دل میں تو اس ارضِ وطن کو ریاست مدینہ کے قالب میں ڈھالنے کی تڑپ بدرجہ اتم موجود ہے جس میں فرات کے کنارے کسی کتے کے بھوکا سونے کی ذمہ داری بھی امیرالمومنین کی ٹھہرائی گئی ہے جو انکے اسی بنیاد پر احتساب کی متقاضی ہوتی ہے مگر انکی حقیقت تو نہلے پہ دہلے والی بن گئی ہے۔ پہلے والے بنیادی انسانی حقوق سے متعلق آئینی شقوں اور فلاحی جمہوری ریاست کے آئینی تقاضوں کو اپنی نظرِعنایت سے محروم رکھتے تھے مگر ان سے دانستاً روگردانی کی گستاخی کے مرتکب ہونے سے بہرصورت گریز کرتے تھے مگر اب تو زمانہ ہی بدل گیا ہے۔ شدومد کے ساتھ دعویٰ فلاحی مملکت کی تشکیل کا کیا جاتاہے‘ ریاست مدینہ کو اپنا ماٹو بنایا جاتا ہے مگر ریاست کے شہریوں کو حسِ لطافت سے دور لے جانیوالی مفلسی کی جانب دھکیلنے میں نہ صرف کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی بلکہ اسکے راستے بھی خود ہی ہموار کئے جاتے ہیں۔ اقتدار میں آنے سے قبل غالباً ایک کروڑ نوکریاں دینے کے اعلانات کئے گئے مگر اقتدار میں آتے ہی نہ صرف بے روزگاروں کی لائنیں لگا دی گئیں بلکہ ایک وزیر موصوف فواد چودھری نے یہ درفنطنی بھی چھوڑ دی کہ شہریوں کو روزگار فراہم کرنا ریاست کی ہرگز ذمہ داری نہیں‘ سو شہریوں کے روزگار کی ذمہ داری ریاست پر ڈالنے والی آئینی شقیں اور بنیادی انسانی حقوق کا چیپٹر گیا بھاڑ میں۔ شہریوں کیلئے سماجی اور اقتصادی انصاف کی ضامن آئین کی شقیں بھلا ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں جنہوں نے شہریوں ہی کا سب کچھ بگاڑنے کی ٹھان رکھی ہو۔
تو جناب! اب تو پورا سنسار ہی بگڑ گیا ہے۔ مہنگائی کا عفریت لاتیں مار مار کر ریاست مدینہ کے کم ظرف شہریوں کو نڈھال اور بدحال کر چکا ہے۔ وہ چلتے تنفس کے ساتھ زندہ ہیں مگر زندہ درگور ہیں…؎
درد ایسا ہے کہ جی چاہے ہے‘ زندہ رہیئے
زندگی ایسی کہ مر جانے کو جی چاہے ہے
کیا خوب تماشا ہے کہ ریاست مدینہ کے شہریوں کی بڑھتی بھوک‘ بے روزگاری اور غربت و افلاس کا ذمہ دار امور حکومت و مملکت پر مسلط کئے گئے آئی ایم ایف کے نمائندے عبدالحفیظ شیخ کو گردانا گیا جنہوں نے اپنی فراغت سے پہلے عوام کو مہنگائی کے سونامیوں کی نذر کرنے کے راستے نکالنے والی آئی ایم ایف کی تمام شرائط آئی ایم ایف سے رجوع نہ کرنے کی داعی اس حکومت سے تسلیم کرائیں اور سٹیٹ بنک کی خودمختاری کا آرڈی ننس جاری کراکے اسے آئی ایم ایف کی ہر ڈکٹیشن پر عملدرآمد کرانے والے اسکے ذیلی ادارے کے قالب میں ڈھال دیا۔ انہیں انکے منصب سے ہٹانے کا کریڈٹ شبلی فراز صاحب نے یہ کہہ کر وزیراعظم عمران خان کو دیا کہ وزیراعظم عوام کی بگڑتی معاشی حالت پر فکرمند ہیں اور حفیظ شیخ کی مسلط کردہ مہنگائی سے انکی خلاصی کرانا چاہتے ہیں مگر انکی جگہ وزیر خزانہ بننے والے نوجوان وزیر مملکت حماداظہر نے یہ قلمدان سنبھالتے ہی دکھی عوام کو یہ ’’مژدۂ جانفرائ‘‘ سنایا کہ مہنگائی کو کنٹرول کرنے کی اصل ذمہ داری تو سٹیٹ بنک کی ہے۔ ارے واہ…؎
میر کیا سادہ ہیں‘ بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں
آئین پاکستان نے تو شہریوں کیلئے تعلیم‘ صحت‘ روزگار اور سماجی و اقتصادی انصاف کی ذمہ داری ریاست پر عائد کی ہے مگر آپ یہ ذمہ داری ان پر ڈال رہے ہیں جو بذات خود شہریوں کو خط غربت سے نیچے قعرمذلت میں دھکیلنے کی ذمہ داری بحسن و خوبی سرانجام دے رہے ہیں۔ اس سسٹم میں حفیظ شیخ کی جگہ حماداظہر کے آجانے سے ہمارے لئے من و سلویٰ تو برسنا شروع نہیں ہو جائیگا اور دودھ و شہد کی نہریں تو نہیں بہنے لگیں گی‘ سو راندۂ درگاہ عوام بیرونی آقائوں کے غلاموں کی شکل میں موجود اشرافیائوں کے ہاتھوں کچلے‘ مسلے جاتے رہیں گے اور یہ سوچ کر اپنی قسمت پر شاکی ہونگے کہ…؎
تھی جو قسمت میں سیاہی وہ کہاں ٹلتی ہے
کھیر بھی آئی میرے سامنے دلیہ ہو کر
٭…٭…٭