وہ لمحہ آج بھی میری آنکھوں کے آگے گھوم رہا ہے۔ الحمراء ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، محترم مجید نظامی رونق محفل تھے۔ نوائے وقت میں ان کی ادارت کے 50سال مکمل ہونے پر ان کی پذیرائی کی جا رہی تھی۔ ہر مقرر فرط جذبات میں ڈوب کر ان کے ساتھ عقیدت و محبت کا اظہار کر رہا تھا۔ مادر وطن کی نظریاتی اساس کے تحفظ کیلئے ان کی بے پایاں خدمات اور میدان صحافت میں ان کی جرأت و بے باکی کے تذکرے جاری تھے اور محترم مجید نظامی کے چہرے کی دمک ان کی رعنائی خیال کی گواہی دے رہی تھی۔ ہر جید مقرر ان کی درازی عمر کیلئے دعاگو تھا۔ میں نے اسی تقریب میں انہیں امام صحافت کا خطاب دیا تو پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ مسلسل 3گھنٹے تک جاری رہنے والی اس باوقار تقریب میں مجید نظامی بلاتکان شریک محفل رہے اور کسی ایک بھی لمحے ان کے چہرے پر ضعیف العمری والا تاثر اجاگر نہ ہوا۔ مہمان خصوصی کی حیثیت سے وہ اپنے تاثرات کے اظہار کیلئے ڈائس پر آئے تو ان پر نچھاور ہوئی پھولوں کی پتیوں کے ڈھیر لگ گئے۔ یہ پھول درحقیقت ان کی قدم بوسی کر رہے تھے۔ سٹیج پر بیٹھی شخصیات میں سے کسی نے بلند آہنگ کے ساتھ ان کیلئے دعا کی کہ اللہ انہیں کرسی ادارت پر اپنی عمر کی کم از کم ایک سنچری مکمل کرنے کا ضرور موقع عطاء فرمائے۔ مجید نظامی اس دعا پر زیرلب مسکرائے اور پھر سٹیج پر براجمان اپنے دیرینہ دوست کرنل سید امجد حسین کی جانب انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے گویا ہوئے کہ میری جتنی بھی باقی عمر ہے، میری تمنا ہے کہ ان جیسی صحت کے ساتھ بسر ہو۔ سید امجد حسین اس وقت اپنی عمر کے 90سال عبور کرچکے تھے اور ان کی جسمانی و دماغی صحت پر پیرانہ سالی کے کوئی آثار نظر نہیں آئے تھے مگر اللہ نے انہیں بھی اپنی عمر کی سنچری مکمل کرنے کی مہلت نہ دی اور وہ اس تقریب کے چند سال بعد ہی اپنی زندہ دلی کے ساتھ اس جہان فانی سے رخصت ہوگئے۔
نوائے وقت میں میرے تقریباً 33برس محترم مجید نظامی کے ساتھ نیازمندی اور عقیدت مندی میں گزرے، وہ پیشہ صحافت میں فی الواقع میرے آئیڈیل تھے۔ اس لئے 1981ء میں نوائے وقت کے ساتھ وابستہ ہونے کے بعد میں نے پیشہ صحافت میں اسی کے ساتھ اپنے پڑائو کا پورا عرصہ بسر کرنے کا عزم باندھ لیا۔ اس دوران میرے لئے کئی کٹھن مراحل بھی آئے مگر میں نے محترم مجید نظامی کے ساتھ اپنی عقیدت میں کبھی ہلکی سی بھی کمی پیدا نہ ہونے دی۔ اس پیشہ پیغمبری میں کلمہ حق ادا کرتے رہنے کی جو درخشاں روایت محترم مجید نظامی نے قائم کی، نوائے وقت گروپ آج بھی اسی بنیاد پر ثابت قدمی سے کھڑا ہے اور محترمہ رمیزہ نظامی نے قوم میں پاکستانیت کا جذبہ مضبوط بنانے والی ان کی پالیسی کو کٹھن سے کٹھن حالات میں بھی کبھی کمپرومائز نہیں ہونے دیا۔ وہ آخری لمحے تک باوقار ادارت کے تندہی کے ساتھ فرائض سرانجام دیتے ہوئے 26جولائی 2014ء کو لیلۃ القدر کی برکتیں سمیٹتے ہوئے اپنے خالق حقیقی کو جا ملے اور اپنی بھرپور زندگی کو یادگار اور دوسروں کیلئے مثال بنا گئے۔ آج 3اپریل ان کی سالگرہ کا دن ہے، وہ حیات ہوتے توآج 93برس کے ہوتے اور اپنی تمنا کے مطابق اپنے رفیق کرنل سید امجد حسین جیسی قابل رشک صحت کے ساتھ زندگی بسر کر رہے ہوتے۔ انہوں نے بطور مسلمان، بطور پاکستانی اور بطور انسان جن زریں اصولوں اور اقدار کی آبیاری کی وہ بلاشبہ انہیں رہتی دنیا تک زندہ جاوید رکھیں گی۔ وہ ہر ایک کے ساتھ اپنائیت اور ادب و احترام کے ایسے جذبے سے ملتے تھے کہ اسے اپنے ساتھ ان کے خصوصی تعلق خاطر کا گمان ہونے لگتا تھا۔ نوائے وقت گروپ کو انہوں نے عملاً اپنے گھر اور اس کے ساتھ وابستہ ہر کارکن کو اپنے خاندان کے فرد کا درجہ دیا اور بلاتامل ان کے دکھ درد میں شریک ہوتے رہے۔ وہ حق بات پر اپنے کارکن کے ساتھ ہی ڈٹ کر کھڑے ہو جاتے تھے۔ اس حوالے سے میری ہڈبیتیاں بھی یادگار ہیں۔ میں نے 1986ء میں اے این پی کے سربراہ خان عبدالولی خان کے گاندھی خاندان کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے ایک کالم لکھا، جس کی اشاعت کے بعد ولی خان نے پشاور کی سول کورٹ میں نوائے وقت کے خلاف 10کروڑ روپے کا ہرجانے کا دعویٰ دائر کر دیا۔ یہ اس وقت ہماری صحافت کی تاریخ میں سب سے بڑی رقم والا ہرجانے کا دعویٰ تھا۔ عدالتی نوٹس موصول ہونے کے بعد نظامی صاحب نے مجھے بلایا اور کہنے لگے کہ آپ نے ولی خان کے بارے میں کوئی غلط بات لکھی ہوتی تو میں معافی نامہ چھاپ کر ان سے گلوخلاصی کرا لیتا مگر آپ نے کالم میں اصل حقائق کو اجاگر کیا ہے، اس لئے میں نے ولی خان کے اس دعوے کو کورٹ آف لاء میں کونٹسٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اب آپ نے بھی ثابت قدم ہی رہنا ہے۔ پھر وہ اس کیس میں چٹان کی طرح ڈٹے رہے۔ پشاور کی سول کورٹ چونکہ ولی خان کے زیراثرتھی، اس لئے اس نے نوائے وقت کے خلاف ڈگری جاری کر دی اور پھر نوائے وقت کی اپیل پر پشاور کی سیشن کورٹ نے بھی سول کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا مگر مجال ہے محترم مجید نظامی کے چہرے پر کبھی تشویش کے آثار پیدا ہوئے ہوں یا انہوں نے کبھی میرے ساتھ خفگی کا اظہار کیا ہو کہ آپ نے ہمیں کہاں الجھا دیا ہے۔ انہوں نے پشاور ہائیکورٹ میں اپیل دائر کی جہاں ولی خان ہی محترم مجید نظامی کے ساتھ مفاہمت کرنے اور اپنے کیس سے دستبردار ہونے پر مجبور ہوگئے۔ اپنے کارکنوں کی حق بات پر ان کے ساتھ کھڑا ہونے کی ایسی ہی شاندار مثال انہوں نے لاہور ہائیکورٹ میں بھی قائم کی۔ جب غلام مصطفی جتوئی کی نگران حکومت کے دور میں صدر کے اسمبلی توڑنے والے صوابدیدی اختیار کے خلاف دائر رٹ درخواست کی عدالتی کارروائی کی رپورٹنگ کے حوالے سے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ محمد رفیق تارڑ کی سربراہی میں عدالت عالیہ کے 5رکنی فل بنچ نے نوائے وقت، جنگ اور ڈان سمیت 6قومی اخبارات کے مدیران، پرنٹر، پبلشرز اور میرے سمیت متعلقہ رپورٹروں کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کئے۔ مجید نظامی صاحب میرے ساتھ خود عدالت میں پیش ہوگئے۔ دوسرے تمام اخبارات کے مدیران عدالت سے غیرمشروط معافی مانگنے پر آمادہ تھے مگر محترم مجید نظامی ڈٹ گئے اور انہوں نے فاضل عدالت سے بے باک انداز میں مخاطب ہوتے ہوئے ایسا جاندار فقرہ ادا کیا کہ عدالت کو چیف جسٹس کے ریٹائرنگ روم میں ایک گھنٹہ سوچ بچار کے بعد اپنا نوٹس واپس لینا پڑا۔ اسی طرح ’’امن کی آشا‘‘ کے حوالے سے نوائے وقت میں شائع ہونے والے میرے ایک کالم پر جنگ کے ایڈیٹرانچیف میر شکیل الرحمن نے بھی نوائے وقت کے خلاف کراچی کی عدالت میں کروڑوں روپے کا ہرجانے کا دعویٰ دائر کیا جو محترم مجید نظامی نے کونٹسٹ کیا اور ’’امن کی آشا‘‘ کے خلاف اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ان کے اصولوں پر ڈٹے رہنے اور سچ کو سچ تسلیم کرنے کے بے شمار واقعات آج مجھے بے ساختہ یاد آرہے ہیں۔ وہ اپنی سالگرہ منانے سے ہمیشہ گریز کیا کرتے تھے مگر نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے سیکرٹری شاہد رشید نے ان کی سالگرہ کی تقریب کا اہتمام شروع کر دیا اور انہیں یہ کہہ کر اس تقریب میں شریک ہونے پر بھی قائل کرلیا کہ بانیان پاکستان علامہ اقبال اور قائداعظم کی سالگرہ بھی تزک و احتشام کے ساتھ ہی منائی جاتی ہے۔ آپ بھی قومی مشاہیر میں شامل ہیں، اس لئے عوام کو آپ کا جنم دن بھی تزک و احتشام سے منانے کا موقع ملنا چاہئے۔ 3اپریل 2014ء کو اپنی وفات سے صرف تین ماہ قبل وہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ میں منعقدہ اپنی سالگرہ کی تقریب میں بھرپور انداز میں شریک ہوئے اور اس تقریب کو یادگار بنا گئے۔ آج کرونا وائرس کی تیسری لہر کے پیداکردہ سنگین حالات کے باعث بھرپور تقریب کی صورت میں ان کی سالگرہ کا اہتمام نہیں ہو رہا مگر ان کی دلوں کو منور کرنے والی یادیں ہمیشہ تازہ رہیں گی…؎
سب کہاں‘ کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی جو پنہاں ہو گئیں
٭…٭…٭