اپوزیشن جماعتوں کا مطمحٔ نظر اگر تحریک انصاف کو اقتدار سے دور رکھنے یا اسکی حکومت کی بساط لپیٹنے کا ہوتا تو اس کیلئے انکے پاس 2018ء کے انتخابات سے اب تک بے شمار مواقع موجود تھے مگر پیپلزپارٹی سینٹ میں سید یوسف رضا گیلانی کی اپوزیشن لیڈری پر ہی مطمئن ہے تو جناب کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ انکی سرخوشی کا معاملہ تو کچھ ایسا بنا نظر آتا ہے کہ…؎
تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا
ورنہ گلشن میں علاجِ تنگی ٔداماں بھی تھا
یہ ’’قناعت‘‘ پیپلزپارٹی کی سیاست میں ہی جلوہ گر نہیں ہوئی‘ خیر سے مسلم لیگ (ن) بھی پنجاب میں اپنے چھ سینیٹروں کے بلامقابلہ انتخاب کا ’’معرکہ‘‘ سر کرکے مطمئن ہو کر بیٹھ چکی ہے۔ ان دونوں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اس ’’قناعت‘‘ کا مظاہرہ اس وقت کیا گیا جب یہ اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر ہینگ لگے نہ پھٹکڑی کے مصداق حکومت کو ناقابل تلافی ڈنٹ ڈالنے کی اطمینان بخش پوزیشن میں تھیں۔ اگر قوم کیلئے حکومت کا ’’صبح گیا یا شام گیا‘‘ والا منظر بنانے کے بعد ان اپوزیشن جماعتوں نے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کا دلدوز منظراجاگر کیا ہے تو حکومت گرانے کا ایجنڈا رکھنے والی ان اپوزیشن جماعتوں کے اصل ایجنڈا کا کھوج لگانا پڑیگا۔ میری دانست میں تو ان کا ایجنڈا سیاست میں اپنی اپنی انائوں کی تسکین کا ایجنڈا ہے۔ بس ’’میری بھینس کو ڈنڈا کیوں مارا‘‘ جیسا بہانہ چاہیے۔
جب انکے مابین حالات سازگار تھے اور ان میں گاڑھی چھن رہی تھی تو اس وقت بھی ان کا باہمی معاملہ کچھ ایسا ہی رہا ہوگا کہ…؎
میں اسے چھیڑوں اور کچھ نہ کہے
چل نکلتے جو مَے پیئے ہوتے
شاید انکے مابین ’’نازک خم‘‘ کا ہی سارا جھگڑا ہے ورنہ مثالی اتحاد کی فضا تو 2018ء کے انتخابات کے نتائج نے ہی ہموار کر دی تھی۔ وفاق میں بھی پی ٹی آئی کو تنہاء حکومت سازی کیلئے عددی اکثریت حاصل نہ ہو پائی جس کیلئے عمران خان قوم کو باور کراتے رہے کہ اگر انہیں تنہاء حکومت سازی کیلئے عددی اکثریت حاصل نہ ہوپائی تو وہ اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنا قبول کرلیں گے مگر کسی کے ہاتھوں بلیک میل نہیں ہونگے۔ پنجاب میں تو مسلم لیگ (ن) حکومت بنانے کی پوزیشن میں آچکی تھی اور بلوچستان میں ’’باپ‘‘ کے راج کی فضا مکمل ہموار تھی۔ سندھ ویسے ہی پیپلزپارٹی کی جھولی میں شیرینی کی طرح آچکا تھا۔ بس خیبر پی کے میں پی ٹی آئی کو گرین سگنل ملا تھا‘ اگر اس پوزیشن پر آکر بھی پی ٹی آئی کیلئے وفاق اور تین صوبوں میں حکومت تشکیل دینا چٹکی بجانے کا کھیل بن گیا تو حضور! ’’دامن کو ذرا دیکھ‘ ذرا بند قبا دیکھ‘‘۔
یہ اصولی سیاست تھی یا وصولی سیاست‘ اب اسکی گرہیں کھلتی نظر آرہی ہیں۔ اگر اتفاق میں برکت والا اپوزیشن اتحاد 2018ء کے انتخابات کے فوری بعد تشکیل پاجاتا جس کیلئے ذہنی ہم آہنگی کی فضا ہموار بھی ہو چکی تھی تو آج اقتدار کے ایوانوں میں صدر‘ وزیراعظم‘ چیئرمین سینٹ‘ سپیکرز قومی و صوبائی اسمبلیز اور وزراء اعلیٰ سمیت اقتدار کی راہداریوں میں موجود ہر نشست پر اسی اتحاد کے بندے بیٹھے ہوتے اور انہیں اپنے کڑے احتساب کا بھی کوئی دھڑکا لاحق نہ رہا ہوتا۔ مگر انکی سیاست عمران خان کے اقتدار کیلئے سدِراہ بننے کی سیاست تھی ہی نہیں۔ بلوچستان میں پیپلزپارٹی عمران خان کو ساتھ ملا کر مقاصد حاصل کرنے کا پہلے ہی کامیاب تجربہ کر چکی تھی جس سے ان دونوں کے مابین نظریاتی منافرت کی گنجائش ختم ہوئی جبکہ مفاداتی سیاست میں سب چلتا ہے۔ ارے‘ اب تک سب یہی کچھ تو چل رہا ہے‘ اور آج پی ڈی ایم کیلئے یہی کہا جا سکتا ہے کہ…؎
قسمت کی خوبی دیکھئے‘ ٹوٹی کہاں کمند
دو چار ہاتھ جبکہ لبِ بام رہ گیا
اندازہ لگایئے پی ڈی ایم کی جارحانہ سیاست میں گزشتہ دو ماہ کے دوران حکومتی کشتی کیسے ہچکولے کھاتی نظر آئی اور مثالی اتحاد کی فضا ایسی بنی کہ مریم اور بلاول آئندہ کی قومی سیاست میں بھی ایک دوسرے کا دم بھرتے اور ایک دوسرے کے ساتھ ماضی کی طرح برسرپیکار نہ ہونے کے عہدوپیماں کرتے نظر آئے۔ بے نظیر اور نوازشریف کے مابین بہن بھائی والے پیار پر دونوں خاندانوں کے ہونہار بچے مہرتصدیق لگاتے نظر آئے۔ ایسا ایکا بن گیا کہ سینٹ انتخابات میں اپوزیشن کیلئے میدان صاف نظر آنے لگا۔ اکثریت نہ ہونے کے باوجود یوسف رضا گیلانی نے میدان مار لیا۔ اس صاف میدان میں ان کیلئے چیئرمین سینٹ بننا بھی بھلا کیا مشکل تھا مگر یکایک پینترا بدل گیا اور چیئرمین سینٹ بننے کا یقین رکھنے والے حضرت اپوزیشن لیڈر بننے پر ہی خوشی سے سرشار نظر آنے لگے۔ مریم نواز نے کراچی کے جلسے میں حکومتی حلقوں پر پھبتی کستے ہوئے طنز کا تیر مارا تھا ’’ہاہاہا‘ پی ڈی ایم ٹوٹ گئی‘‘ یہ تیر الٹا آن لگا اور یہ پھبتی خود مریم نواز کے گلے پڑ گئی ’’ہاہاہا…‘ پی ڈی ایم ٹوٹ گئی‘‘۔ بھئی یہ خواب تو نہیں‘ برسر زمین یہ سب کچھ ہو چکا ہے۔ قومی اسمبلی اور سینٹ میں حکومت کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب بنانے کی پوزیشن پر آنیوالے اپوزیشن اتحاد کے اپنے پائوں کے نیچے سے زمین سرک چکی ہے۔ اے این پی اعلانیہ پی ڈی ایم کو خیرباد کہہ چکی ہے اور باقی جماعتوں میں ایک دوسرے کو مطعون کرنے کا سلسلہ شدومد کے ساتھ جاری ہے جس نے طول پکڑا تو 90ء کی دہائی والی منافرتوں بھری سیاسی محاذآرائی کا منظرنامہ پھر اجاگر ہو سکتا ہے۔ ایسے میں جہانگیر ترین کی جانب سے حکومتی پارٹی میں نقب لگانے سے اقتدار کے ایوانوں میں تبدیلی کا پپیہا پی پی پی پی کرتا نظر آرہا ہے مگر ان تِلوں میں تو اب تیل ہی نہیں رہا جو اس ممکنہ تبدیلی کے محرک کو ساتھ ملا کر پانسہ پلٹنے کی پوزیشن میں ہو سکتے تھے۔ پیپلزپارٹی جہانگیر ترین کے زور پر بھلا پنجاب میں کیا تبدیلی لاپائے گی جہاں اسکی نشستیں بس ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنی جا سکتی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کیلئے پھر بھی کوئی گنجائش نکل سکتی ہے مگر اسکی قیادت نے تو اپنی اتحادی پیپلزپارٹی کی جانب سے چودھری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ پنجاب بنانے کی تجویز کو ہی انا پرستی کے خول میں بند کر دیا سو جہانگیر ترین بھی اسی تجویز کے ساتھ آئینگے تو مسلم لیگ (ن) تبدیلی کے اس موقع کو بھی لات مارے بغیر نہیں رہ سکے گی۔ انا پرستی کی اس سیاست میں عوام کے ہاتھ پلّے نہ پہلے کچھ آیا نہ اب کچھ آئیگا۔ آپ ’’میری بھینس کو ڈنڈا کیوں مارا‘‘ کہتے ہوئے ایک دوسرے کیخلاف ’’کِڑ‘‘ نکالتے رہیں۔ آپ کے کرموں سے ’’سٹیٹس کو‘‘ نے نہ ٹوٹنا ہے نہ ٹوٹے گا کیونکہ…؎
سارے اس کے ہمجولی تھے
کرتا کون بغاوت یارا
٭…٭…٭