وفاقی محتسب سیکرٹریٹ کا کمال
Apr 23, 2021

ہمارے عدالتی نظام میں مقدمات کے سالہا سال زیر التواء رہنے کی روایت تو اب ضرب المثل بن چکی ہے جس کے لیے بالعموم یہی کہا جاتا ہے کہ دادا کیس دائر کرتا ہے اور پوتے کی زندگی میں بھی اس کیس کے فیصلہ کی نوبت نہیں آتی۔ مقدمات کے زیر التواء رہنے کی بنیادی وجہ تو مقدمہ بازی کا بڑھنا ہے جبکہ ہماری حکومتیں بھی زیر التواء مقدمات کی تعداد بڑھانے کا باعث بنتی ہیں جو عدالتی عملداری کے لوازمات پورے کرنے کے معاملہ میں اکثر بے نیاز رہتی ہیں اور عدلیہ میں ججوں اور دوسرے عدالتی عملے کی مطلوبہ تعداد ہی پوری نہیں کر پاتیں۔ اس معاملہ میں ہماری ماتحت عدلیہ کی حالت تو بہت دگرگوں ہے جو لاکھوں زیر التواء مقدمات کا بوجھ اٹھائے اگلے سال میں داخل ہوتی ہے مگر ہماری اعلیٰ عدلیہ کا معاملہ بھی اس حوالے سے مثالی نہیں ہے۔ پاکستان کے ہر فاضل چیف جسٹس نے اپنا منصب سنبھالنے کے بعد زیر التواء مقدمات جلد نمٹانے کی حکمت عملی طے کی اور عزم بھی باندھا مگر اعلیٰ عدلیہ میں بالعموم سیاسی مقدمات کی بھرمار ہوتی ہے جنہیں فوری نمٹانا عدلیہ کی ترجیح بن جاتا ہے اس لیے عام سائلین کے زیر التواء مقدمات زیر التواء بھی رہتے ہیں اور ان کی تعداد بھی بڑھتی جاتی ہے۔ 

انصاف کی عملداری کی اس صورت حال میں مجھے گزشتہ دنوں ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے وفاقی محتسب سید طاہر شہباز کے احتساب کے ادارے کی سالانہ کارکردگی کی رپورٹ بھجوائی تو میں اس ادارے کی جانب سے موصولہ شکایات کے ازالے کی رفتار دیکھ کر ورطۂ حیرت میں گم ہو گیا ، وفاقی محتسب سیکرٹریٹ کا قیام 38 سال قبل عمل میں آیا تھا مگر اس کی حیثیت ایک گم صم ادارے جیسی ہی رہی ہے۔ زیادہ تر عوام الناس کو شاید اس ادارے کے کام اور کارکردگی کا علم بھی نہیں ہو گا اور یہ تو قطعاً ادراک نہیں ہو گا کہ اس ادارے سے فوری داد رسی بھی ہو جاتی ہے مگر اس ادارے کی 2020 ء کی کارکردگی نے تو ا س ادارے کے بارے میں سارے تاثرات اور تصورات زائل کر دئیے ہیں۔ خدا کرے کہ رپورٹ میں شکایات موصول ہونے اور نمٹانے کے جو اعداد و شمار دئیے گئے ہیں وہ من و عن حقیقت پر مبنی ہوں اور اس سے انصاف و احتساب کے اداروں کی کارکردگی کے بارے میں میری رجائیت پسندی مزید مضبوط ہو جائے اور میں یہ کہنے کی پوزیشن پر آ جائوں کہ اگر عزم راسخ ہو تو عملیت پسندی میں کچھ بھی ناممکنات میں شامل نہیں ہو سکتا۔ 

ایک سال کے 365 دن میں سرکاری اور ہفتہ وار تعطیلات نکال کر اور کرونا وائرس کے احتیاطی دنوں کو شمار کر کے کسی ادارے کے پاس کام کے لیے بہت کم وقت رہ جاتا ہے مگر وفاقی محتسب کے ادارے نے تو سال 2020ء میں کمال ہی کر دیا اور مزید کمال یہ ہوا کہ اس کے زیر غور آنے والی شکایات کے تمام فیصلے 60 دن کے اندر اندر کئے گئے جن پر عملدرآمد کی شرح 89 فیصد رہی جبکہ اس بار وفاقی محتسب سیکرٹریٹ کو گزشتہ سال کی نسبت 87 عشاریہ سات فیصد درخواستیں زیادہ موصول ہوئیں۔ ان درخواستوں میں 55 ہزار 591 بذریعۂ ڈاک ، 16 ہزار 650 بذریعہ ویب سائیٹ پانچ ہزار 999 بذریعہ موبائل ایپ اور 55 ہزار 281 درخواستیں شکایات کے ازالہ کے مربوط پروگرام کے تحت موصول ہوئیں ۔ ان میں چھ ہزار 112 شکایات او سی آر پروگرام کے تحت نمٹائی گئیں جبکہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی 51 ہزار 316 موصولہ شکایات کا پاکستان کے تمام بین الاقوامی ہوائی اڈوں پر قائم ’’یکجا سہولیاتی ڈیسکوں‘‘ پر موقع پر ہی ازالہ کیا گیا۔ شکایات نمٹانے کی یہ تعداد دیگر ذرائع سے موصولہ ایک لاکھ 30 ہزار 112  شکایات کے علاوہ ہے جبکہ ان سوا لاکھ سے زائد شکایات کا ازالہ بھی 60 دن کے اندر اندر ہوا۔ 

یہ دلچسپ سے زیادہ تشویش ناک امر ہے کہ وفاقی محتسب سیکرٹریٹ کو سب سے زیادہ شکایات بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے خلاف موصول ہوئیں جو ا س وقت احساس پروگرام کے نئے نام سے کام کر رہا ہے۔ اس ادارے کے خلاف موصول ہونے والی شکایات کی تعداد 40 ہزار 120 تھی جن میں سے 39 ہزار 741 شکایات کا ازالہ کیا گیا۔ اس ادارے کے بارے میں زیادہ تر شکایات جعلسازی کے بارے میں ہوتی ہیں جس کے تحت اس ادارے کے عملہ کی ملی بھگت سے مستحقین کے لیے مخصوص فنڈز کا خوردبرد کیا جاتا ہے۔ چنانچہ کئی اعلیٰ سرکاری افسران اس فنڈ پر مستحقین کے نام پر اپنے خاندانوں کو پالتے رہے ہیں جن کی فہرست بھی منظرعام پر آ چکی ہے۔ میں اس خوردبرد کا اس لیے بھی عینی شاہد ہوں کہ مجھے میرے موبائل فون نمبر پر سالہا سال سے ہر تیسرے چوتھے ماہ ایک پیغام موصول ہوتا ہے کہ ’’آپ کو مبارک ہو، آپ کے نام مبلغ 25 ہزار روپے بے نظیر انکم سپورٹ فنڈ سے نکلے ہیں۔ یہ رقم وصول کرنے کے لیے آپ فلاں نمبر سے رابطہ کریں‘‘ میں نے ا س فراڈ گروپ کو قابو کرنے کی کئی بار کوشش کی مگر دئیے گئے نمبر پر کبھی رابطہ نہیں ہو پایا۔ ظاہر ہے ایسے بے شمار پیغامات دوسرے لوگوں کو بھی موصول ہوتے ہوں گے اور ان کے نام ظاہر کی گئی رقوم مستحقین کے فنڈز میں سے خوردبرد کی جا رہی ہوں گی۔ اگر ان کی ٹھوس بنیادوں پر گرفت کی گئی ہوتی تو فراڈ گروپ کی جانب سے ایسے پیغامات بھجوانے کا سلسلہ ختم ہو چکا ہوتا مگر یہ کاروبار تو بدستور جاری ہے۔ وفاقی محتسب کو اس ادارے کے حوالے سے جو شکایات موصول ہوئیں وہ نہ جانے کن معاملات پر تھیں ، اس کی وضاحت بھی وفاقی محتسب کی سالانہ رپورٹ میں موجود ہونی چاہیے۔ 

اس کے علاوہ جن سرکاری اداروں کے بارے میں وفاقی محتسب سیکرٹریٹ کو زیادہ درخواستیں موصول ہوئیں ان میں بجلی تقسیم اور سپلائی کرنے والی کمپنیاں ، سوئی گیس ، نادرا ، پاکستان پوسٹ ، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ، پاکستان بیت المال ، ریلوے ، اسٹیٹ لائف انشورنس ، انٹیلی جنس بیورو اور ای او بی آئی شامل ہیں۔ ان تمام اداروں کے ساتھ عوام کے براہ راست معاملات ہوتے ہیں جو ظلم اور زیادتی سے متعلق ہوتے ہیں۔ اگر عوام کی ان اداروں کے خلاف شکایات کا بروقت ازالہ ہو رہا ہے تو ا س سے زیادہ انصاف کی عملداری کی خوش آئند صورت حال اور کیا ہو سکتی ہے۔ ہماری عدل گستری میں اب تک یہی تو خامی ریکارڈ ہوئی ہے کہ اول تو عام آدمی کی انصاف کے ایوانوں تک رسائی ہی نہیں ہو پاتی اور اگر کسی طرح ہو جاتی ہے تو شنوائی کی نوبت نہیں آ پاتی مگر وفاقی محتسب سیکرٹریٹ نے تو کمال ہی کر دیا ہے ، کیا اس کمال کے اثرات انصاف کے دوسرے اداروں تک پہنچ سکتے ہیں؟۔اگروفاقی محتسب کی طرح صوبائی محتسب کا ادارہ بھی فعال اور مستعد ہو تو وہ لاہور کالج یونیورسٹی برائے خواتین میں حال ہی میں کی گئی ایک سنگین بے ضابطگی کی گرفت کر سکتا ہے۔ اس یونیورسٹی کے قیام کے وقت دوسرے سرکاری کالجوں سے 90 سے زائد خواتین لیکچررز اور پروفیسرز کو تبدیل کر کے یہاں تعینات کیا گیا تھا جنہیں اب یکایک واپس بھجوانے کا پروانہ جاری کر دیا گیا ہے۔ ان میں کئی خواتین اپنی مدت ملازمت پوری کرنے کے قریب ہیں جنہیں نئے تقرر ناموں میں نہ جانے کہاں پھینکا جائے گا۔ 

اگر صوبائی محتسب یا انصاف کے کسی دوسرے ادارے کی جانب سے ان کی دادرسی ہو جائے تو وہ اپنی ملازمت کے آخری مراحل میں خجل خراب ہونے سے بچ سکتی ہیں ورنہ ادارہ جاتی بے تدبیریوں کی ایک نئی مثال تو ضرور قائم ہو جائے گی۔ بھئی ایک مادر علمی کو بیٹھے بٹھائے 90 ، اساتذہ سے محروم کرنا بھلا کہاں کی دانشمندی ہے۔
    Bookmark and Share   
       Copyright © 2010-2011 Saeed Aasi - All Rights Reserved info@saeedaasi.com